021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کی وقف کردہ زمین مدرسہ بنانے کا حکم
79982.62وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

اس مسئلہ کے بارے میں حضرات مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں کہ ایک خاتون نے مسجد کے لئے جگہ وقف کی ہے، کل جگہ ایک کنال ہے۔ اس جگہ میں سے تقریباً 13 مرلے  پر مسجد کا کام ہوا ہے، مسجد کا حال اورصحن وغیرہ  بقیہ تقریباً 7 مرلہ  جگہ بچی ہوئی ہے۔  ہماراارادہ  ہے کہ اس کے ساتھ  تھوڑی بہت زمین اور  ملا کر مدرسے کی درسگاہیں  وغیرہ تعمیر کر دیں ۔ہمیں بچوں اور  بچیوں کی تعلیم   کے لیے درسگاہوں کی اشد ضرورت ہےاور ہمارے پاس درسگاہیں با لکل  نہیں ہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو جگہ ایک مرتبہ مسجد کے لیے وقف  کردی جائے، اور متولئ وقف کے حوالے بھی کردی جائے  تو وقف مکمل اور تام ہوجاتاہے۔وقف  کےتام ہونے کے بعداس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی جائز نہیں ہے  کیونکہ   موقوفہ چیز  واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے۔

            لہذا صورتِ مسئولہ میں واقف نے جب ایک کنال جگہ مسجد کے لیے وقف  کردی تو اب اس جگہ میں  مسجد ہی کی  تعمیر کی جائے،البتہ اس خالی جگہ میں مصالح مسجد کے لیے کچھ کمرے اس نیت سے بنائے جائیں کہ یہ کمرے مسجد ہی کے ہیں چنانچہ مسجد میں آنے آنے والی تبلیغی جماعت بھی اس میں رہے،اور بوقتِ ضرورت  مسجد کے آداب کی رعایت رکھتے ہوئے مدرسہ کے لیے بھی استعمال ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
(رد المحتار) (4/ 351)
(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)
البناية شرح الهداية (7/ 431)
وإذا صح خرج من ملك الواقف، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه؛ لأنه لو دخل في ملك الموقوف عليه، لا يتوقف عليه، بل ينفذ بيعه كسائر أملاكه، ولأنه لو ملكه لما انتقل عنه بشرط المالك الأول، كسائر أملاكه،
الفتاوى الهندية (2/ 362)
البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية.

     عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

۲۱؍شعبان ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب