021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مستحقِ زکوۃ کون
80012.62زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

           مُؤدبانہ گزارش ہے کہ میں پہلے صاحبِ حیثیت تھا، فی الحال  مالی مشکلات کی وجہ سے میں بے گھر ہوں کوئی کاروبار نہیں ہےنہ ہی کوئی جائیداد وغیرہ ہے، آپ حضرات سے معلوم کرنا تھا کہ کیا میں زکوۃ  کی رقم لے سکتا ہوں ، بہت سے جان پہچان والے لوگ زکو ۃدیتے وقت پوچھتے ہیں کہ مجھ پرز کو ۃ ہوتی ہے یا نہیں۔ لہذا اس حوالے سے میری رہنمائی فرمائیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

         اصول یہ ہے کہ جس مسلمان کے پاس بنیادی ضرورت (رہنے کا مکان،کپڑے  اور برتن  وغیرہ ) کے علاوہ بقدر نصاب مال یا سامان موجود نہ ہواور وہ شخص سید یا قریشی بھی نہ ہو تو وہ زکوۃ  کا مستحق ہے،اسے اس کی ضرورت کے بقدر زکوۃ دی جا سکتی ہے۔

نصاب: اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا اور صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی، یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی یا سامانِ تجارت ہو، یا ضرورت سے زائد سامان جو سال بھر استعمال نہیں ہوتا، یا یہ سب (سونا،چاندی ،نقدی، مالِ تجارت، ضرورت سے زائد سامان)ملا کر یا ان میں سے بعض کو ملا کرمجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو تو ایساشخص زکوۃ وصولی کے حوالےسے خودصاحبِ نصاب ہے،مستحقِ زکوۃ نہیں ہے۔

       لہذا مذکورہ  بالا اصول کو دیکھتے ہوئے  آپ  اپنے بارے میں مستحقِ زکوۃ  ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ خود  کرسکتے ہیں ۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 189)
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 277)
(ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا من أي مال كان) لأن الغنى الشرعي مقدر به، والشرط أن يكون فاضلا عن الحاجة الأصلية
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 131)
(قوله ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا من أي مال كان) سواء كان النصاب ناميا أو غير نام حتى لو كان له بيت لا يسكنه يساوي مائتي درهم لا يجوز صرف الزكاة إليه وهذا النصاب المعتبر في وجوب الفطرة والأضحية قال في المرغيناني إذا كان له خمس من الإبل قيمتها أقل من مائتي درهم يحل له الزكاة وتجب عليه ولهذا يظهر أن المعتبر نصاب النقد من أي مال كان بلغ نصابا من جنسه أو لم يبلغ وقوله إلى من يملك نصابا بشرط أن يكون النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية.
(قوله ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من ذلك وإن كان صحيحا مكتسبا) لأنه فقير إلا أنه يحرم عليه السؤال ويكره أن يدفع إلى فقير واحد مائتي درهم فصاعدا فإن دفع جاز. 

       عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

۲۶؍شعبان ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب