021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرکاری ملازمت میں عوام سے تحائف وصول کرنا
79997جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

محترم مفتی صاحب ۔۔۔بعد از سلام مسنون ۔۔۔ پوچھنا یہ ہے کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔۔۔ ہمارے دفتر میں لوگوں سے کئی مختلف ناموں کے ذریعے رشوت لی جاتی ہے۔۔۔ اور حلت کیلئے بطورِ دلیل یہ کہا جاتا ہے کہ مفتیان کرام نے یہ اجازت دے رکھی ہے کہ اگر ہم کسی کا کوئی کام کریں اور اس سے کوئی طمع یا مطالبہ نہ کیا ہو ۔۔۔ اب کام ہو جانے کے بعد اگر کام کروانے والا ہمیں کچھ رقم، کپڑے وغیرہ اپنی خوشی سے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔اسی دلیل کے تحت ہمارے اس سرکاری دفتر میں معمولی کام پر بھی اکثر ملازمین اپنی مقررہ تنخواہوں کے علاوہ عوام سے خوب ہدایا وصول کرتے ہیں ۔۔۔کیا شرعًا ایسا کرنا درست ہے ۔۔۔؟؟؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

رشوت لینا  کبیرہ گناہوں میں سے ایک  گناہ ہے جس پر احادیث مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے۔آجکل   رشوت لینے  کےلیے جو حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رشوت کو ہدیہ کا نام دیا جاتا ہے،  علماء کرام نے وہ ہدیہ لینے کی اجازت دی ہے جس میں کسی قسم کی طمع نہ ہو اور  اگر ہدیہ نہ  بھی دیا جائے تو وہ کام میں رکاوٹ نہ ڈالے۔اس کے برعکس آج کل اگر ہدیہ(رشوت) نہ دیا جائے تو  دفاتر میں کام ہی  نہیں کیا جاتا  ۔ لہذا  اس طریقے سے رشوت  کو ہدیہ کہہ کر لینا ناجائز اور حرام ہے۔ اس سے اجتناب ضروری ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 372)
(ويرد هدية) القاضي (إلا من) أربع السلطان والباشا أشباه وبحر و (قريبه) المحرم (أو ممن جرت عادته بذلك) بقدر عادته ولا خصومة لهما درر (و) يرد إجابة (دعوة خاصة وهي التي لا يتخذها صاحبها لولا حضور القاضي)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 362)
وفي الأقضية قسم الهدية وجعل هذا من أقسامها فقال: حلال من الجانبين كالإهداء للتودد وحرام منهما كالإهداء ليعينه على الظلم وحرام على الآخذ فقط، وهو أن يهدى ليكف عنه الظلم والحيلة أن يستأجره إلخ قال: أي في الأقضية هذا إذا كان فيه شرط أما إذا كان بلا شرط لكن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان فمشايخنا على أنه لا بأس به، ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به وما نقل عن ابن مسعود من كراهته فورع

عبدالقیوم   

دارالافتاء جامعۃ الرشید

26/شعبان المعظم/1444            

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب