80010 | طلاق کے احکام | طلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان |
سوال
میں نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ اگر آپ فلاں کام سے باز نہیں آتی تو میں تمہیں طلاق دونگا۔اس کے بعد میری بیوی اپنے والدین کے ہاں چلی گئی،ڈھائی تین سال ہوگئےہیں ابھی ہم دونوں واپس ازدواجی زندگی ایک ساتھ گزارنے کے لئے راضی ہیں۔
ہمارے لئے شرعی حکم کیا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ طلاق ماضی یا حال پر دلالت کرنے والے الفاظ کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔جن الفاظ سے مستقبل میں طلاق دینے کے عزم کا اظہار ہو ان سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔لہٰذا سوال میں جوالفاظ لکھے گئے ہیں ان سے طلاق نہیں ہوتی،اگر شوہر نے واقعۃ صرف یہی الفاظ استعمال کئے تھے تو طلاق نہیں ہوئی ہے،چنانچہ آپ کی بیوی بدستور آپ کے نکاح میں ہے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية 1/ 384
لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 3/ 319
أنا أطلق نفسي لم يقع لأنه وعد۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 38)
صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال۔
محمدمصطفیٰ رضا
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
27/شعبان/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |