021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نواسے کی میراث کا حکم
80048میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

عرض یہ کہ ہم چھ بہنیں ہیں، ہمارا کوئی بھائی نہیں ہےہماری ایک بہن ہمارے والد کی زندگی میں فوت ہو گئی تھی،ہماری بہن کی فوتگی کے بعد ان کی اولاد ہمارے والد کی سخت نافرمان تھی جس کی وجہ سے ہمارے والد نے انہیں اپنی جائیداد سے بے دخل کر دیا تھا ۔ کیا والد کی جائیداد میں فوت شدہ بیٹی کی اولاد کا حق بنتا ہےیا نہیں ؟ رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤولہ میں چونکہ بیٹی کا انتقال والد کی زندگی میں ہوا ہے، لہٰذا والد کی وفات کے بعد بیٹی کی اولاداپنے نانا  کی میراث کی مستحق نہیں ہوگی،البتہ ورثاء یعنی باقی بہنیں اپنی رضا مندی سے اپنی بہن کی اولاد کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتی ہیں اور اگر بہن کے بچے مستحق ہوں تو بہرحال اپنی حیثیت کے مطابق ان پر خرچ کرنا چاہیے تاکہ صلہ رحمی کا عظیم ثواب حاصل ہوسکے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 791)
توريث ذوي الأرحام (هو كل قريب ليس بذي سهم ولا عصبة) فهو قسم ثالث حينئذ (ولا يرث مع ذي سهم ولا عصبة سوى الز وجين) لعدم الرد عليهما (فيأخذ المنفرد جميع المال)بالقرابة (ويحجب أقربهم الأبعد) كترتيب العصبات.
سنن الترمذي (2/ 84)
وقال :الصدقة على المسكن صدقة وهى على ذى الرحم ثنتان صدقة وصلة۔
صحيح البخاري (2/ 728)
عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ( من سره أن يبسط له في رزقه أو ينسأ له في أثره فليصل رحمه.

ولی الحسنین

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

4رمضان 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب