021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالت سے تنسیخِ نکاح کا حکم
80052طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

میرا شوہر عمان میں رہتا ہےاور میں یہاں پاکستان میں ہوں،ہم دونوں کی شادی کے وقت بات یہ ہوئی تھی کہ میں عمان اپنے شوہر کے ساتھ جاؤں گی،لیکن شوہر کی طرف سے کچھ مسائل کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔کچھ عرصہ کے بعد میرے سسرال عالوں کا رویہ میرے ساتھ بہت برا رہا اور میں نے اس کے بارے میں اپنے والد کو بتایا تو انہوں نے میرے شوہر سے رابطہ کیا،لیکن اس کا فائدہ نہ ہواتو میرے والد نے ان سے کہا کہ پھر تم میری بیٹی کو طلاق دے دو اگر تم اس کو عزت سے نہیں رکھ سکتے۔میرے شوہر نے کہا کہ آپ طلاق کے پیپر بنوا کر مجھے بھیج دیں میں سائن کردونگا۔جب نوٹری پبلک سےانہیں پیپر بھیجا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ نہیں مجھے عدالت کے ذریعے پیپر بھجوائیں تب  میرے والد نے میری اجازت سے خلع کے لئے عدالت سے رجوع کیا۔خلع کی کیس چل رہا تھا اسی دوران میرے شوہر کو ایسی میڈیکل کنڈیشن پیش آئی کہ جس کی وجہ سے ان کی جاب اور ویزا دونوں کینسل ہوگئے اور پاکستان واپس آگئے۔پھر رشتہ داروں کے ذریعےمجھ سے رابطہ کیا لیکن میں دل برداشتہ ہوگئی تھی اس لئے خلع پر مکمل آمادہ تھی۔عدالت کی پیشیوں پر یہ عدالت حاضر نہ ہوئے،تیسری اور آخری پیشی پر جب یہ حاضر ہوئے تو جج نے ہم دونوں کی موجودگی میں ہمارا موقف سنا اور ہماری خلع کی کاروائی مکمل ہوئی۔میں نے تین مہینے شرعی عدّت پوری کی اور ان تین ماہ میں یونین کاؤنسل کی طرف سے ان کو مسلسل رجوع کے نوٹس گئے جو انہوں نے وصول بھی کئے۔پھر عدالتی حکم پر ہی میرا سامان ان کے گھر سے اٹھا لیا گیا۔میری خلع کی کاروائی کا علم تمام خاندان والوں کو بھی تھا مگر جب میرے شوہر سے کوئی پوچھتا تو وہ یہی کہتے کہ میں نے نہ اسے طلاق دی ہے اور نہ ہی ہمارے درمیان خلع کا معاملہ مکمل ہوا ہے وہ اپنی مرضی سے وہاں رہ رہی ہے، حالانکہ شادی کے بعد سے خلع تک ڈھائی سال میں اپنے والدین کے گھر رہی اس شخص نے مجھ سے نان نفقہ کا بھی نہیں پوچھا،جج کے سامنے خاموش بیٹھا رہاگویا ان کے فیصلہ پر راضی ہو کوئی احتجاج نہیں کیا کہ میں اسے طلاق نہیں دے رہا یا مجھے یہ خلع منظور نہیں،مگر لوگوں سے اس طرح کی بات کرتے ہیں کہ میں نے اسے نہیں چھوڑا ہے وہ میری بیوی ہے۔مذکورہ صورت حال میں کیا میرا یہ خلع شرعی طریقے سے منعقد ہوگیا اور کیا اب میں دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہوں؟

تنقیح:سائلہ سے فون پر  معلوم ہوا کہ شوہر بیوی کو نان نفقہ نہیں دیتا تھا اور جسمانی تشدد کرنا بھی شروع کر دیا تھا،نیز عدالت میں دو گواہوں سے مذکورہ مسئلہ کو ثابت نہیں کیا گیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں طلاق کااختیارشوہرکےپاس ہوتاہےاوراگرعورت جدائی اختیارکرناچاہےتوباہمی رضامندی سےخلع کی صورت میں اختیارکرسکتی ہے۔البتہ اگرشوہرنہ توطلاق دیتاہواورنہ ہی خلع پرراضی ہوتوبعض اعذار کی صورت میں شریعت عورت کواختیاردیتی ہےکہ قاضی سےرجوع کرکےنکاح فسخ کروالےلیکن اس کےلئےضروری ہےکہ فسخ نکاح کےشرعی اصولوں کالحاظ کرتےہوئےنکاح کےفسخ ہونےکافیصلہ کیاگیاہو۔

لہٰذا مذکورہ صورت میں عدالت نے شوہر کے ظلم وزیادتی ، نان ونفقہ اور اخراجات کی عدم ادائیگی کو ثابت کیے بغیرتنسیخ نکاح کا فیصلہ دیاہے،چونکہ عورت نے نان ونفقہ کی عدم ادائیگی کاکوئی ثبوت پیش نہیں کیا تھا، اس لیے یہ فسخ نکاح شرعا معتبر نہیں ہے،لہذا  بیوی اسی شوہر کے نکاح میں ہے۔

حوالہ جات
أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية (ص: 165)
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه۔
تفسير ابن كثير 2/ 295
 قال ابن عباس وغير واحد: ضربا غير مبرح. قال الحسن البصري: يعني غير مؤثر. قال الفقهاء: هو ألا يكسر فيها عضوا ولا يؤثر فيها شيئا.
وقال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس: يهجرها في المضجع، فإن أقبلت وإلا فقد أذن الله لك أن تضرب ضربا غير مبرح، ولا تكسر لها عظما۔
الفتاوى الهندية 3/ 363
 ولو قضى برد نكاح المرأة بعيب عمى أو جنون أو نحو ذلك ينفذ قضاؤه لأن عمر رضي الله تعالى عنه كان يقول برد المرأة الزوج بعيوب خمسة ولو قضى برد المرأة الزوج بواحد من هذه العيوب نفذ لأن هذا مختلف فيه بين أصحابنا رحمهم الله تعالى محمد رحمه الله تعالى يقول بالرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وحكم القاضي في الخلع أنه فسخ كالحكم في سائر المجتهدات فإن خواهر زاده رحمه الله تعالى ذكر فيه اختلاف الصحابة رضوان الله تعالى عليهم أجمعين فإذا قضى بكونه فسخا نفذ قضاؤه۔

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 8/رمضان/1444ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب