021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی وارث کا مالِ میراث ضائع کرنے کا حکم
8077.62میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے والدِ محترم کا انتقال 28/اگست 1983ء کو ہوا تھا۔ مرحوم نے ترکہ میں بہت ساری منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں چھوڑی تھیں۔ وہ جائیداد ورثاء میں آج تک تقسیم نہیں ہوئی، بلکہ مرحوم کے بڑے بیٹے: شفاء اللہ ان ساری جائیداد کے مختیار کار تھے۔

اب زمین کی تقسیم ہو رہی ہے تو 12 کنال زمین میں دیگر ورثاء کا شفاء اللہ سے اختلاف ہوگیا ہے۔ اور اختلاف یہ ہے کہ موجودہ زمین میں دو ایکڑ رقبے کی زمین شفاء اللہ کے قبضے میں نہیں ہے۔ جن میں چار کنال کی حد تک تو سارے ورثاء نقصان برداشت کرنے پر راضی ہیں۔ لیکن 12 کنال زمین کے بارے میں دیگر ورثاء کا یہ کہنا ہے کہ شفاء اللہ کو یونین کونسل کا الیکشن لڑنا تھا، اُس نے اپنے مد مقابل امیدوار: فیض اللہ خان کو 12 کنال زمین دینے کا معاہدہ کرلیا تھا۔ لیکن کسی دوسری وجہ سے شفاء اللہ کے لیے بلا مقابلہ ممبر بننے کا راستہ ہموار ہو گیا۔ الیکشن کے بعد شفاء اللہ نے اپنے ساتھ شیر محمد، یار محمد اور ملک امیر کو شامل کرکے زمین کی پیمائش کرکے 12 کنال زمین فیض اللہ خان کو دے دی۔ لیکن جب دوسرے ورثاء نے شفاء اللہ سے اُس زمین کے متعلق پوچھ گچھ کی تو اُس نے کہا کہ وہ زمین فیض اللہ ہی کی تھی، چنانچہ محکمۂ مال کے عملہ نے پیمائش کرکے بتایا تھا کہ حاجی محمد صدیقؒ کے ورثاء کے حصے میں زمین کا جو رقبہ آیا ہے، وہ جنوب کی طرف ہے۔ حالانکہ وہ رقبہ جو فیض اللہ کو دیا گیا ہے، وہ درحقیقت حاجی محمد صدیقؒ کی ملکیت تھا، جس پر درجِ ذیل شواہد موجود ہیں:

1. یہ رقبہ حاجی محمد صدیقؒ نے خریدا تھا، اور اس کا قبضہ بھی فروخت کنندگان سے لیا تھا۔

2. ایک دفعہ اُس رقبہ سے متعلق شفاء اللہ کا فیض اللہ سے جھگڑا بھی ہو چکا ہے، شفاء اللہ نے اُس وقت اس رقبہ کو حاصل کرنے کے لیے عدالت میں دعویٰ بھی دائر کیا تھا۔

3. جب جھگڑا ہوا تھا، اُس وقت فریقِ مخالف نے اُس رقبہ پر بزورِ بازو قبضہ حاصل کرنے کے لیے دس اسلحہ بردار لوگ بلوائے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ معززینِ علاقہ کی مداخلت کی وجہ سے لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آئی۔

4. جب حاجی محمد صدیقؒ نے سادات برادرز سے زمینیں خریدی تھیں، اُس کے تقریباً آٹھ سال بعد فیض اللہ خان نے بھی سادات برادرز سے کچھ زمینیں خریدیں، لیکن اُس وقت رقبہ اگر کم تھا تو اُس نے سادات برادرز پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اور جب حاجی محمد صدیق کا انتقال ہوگیا تو اُن کے ورثاء سے اپنی زمین کا نقصان برداشت کروا رہا ہے۔

5. جب شفاء اللہ نے فیض اللہ خان کو کونسلر کا امیدوار بننے سے روکنے پر معاہدہ کیا تھا، تو برادری کے لوگوں نے شفاء اللہ کو ایسا کرنے سے روکا تھا، مگر اس وقت شفاء اللہ نے یہ کہا تھا کہ مَیں اپنے حصے میں سے رقبہ دے رہا ہوں، تم لوگوں کو اس سے کیا غرض؟!

6. الیکشن کے بعد محکمۂ مال کے بجائے علاقے کے چند لوگوں نے رقبہ پیمائش کرکے فیض اللہ کو دیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ میں 12 کنال زمین کا کون ذمہ دار ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جب کسی کا انتقال ہوتا ہے، تو اُس کے چھوڑے ہوئے مال میں تمام ورثاء کا حصہ ہوتا ہے۔ کسی بھی وارث کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ دیگر ورثاء کو ان کا حصہ دینے سے پہلے مالِ میراث میں کوئی ایسا تصرف کرے جس سے دوسروں کی حق تلفی ہو۔ لہٰذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر شفاء اللہ نے مالِ میراث کا کوئی حصہ فیض اللہ خان کو دیا ہے، تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ لہٰذا شفاء اللہ پر لازم ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی کرے، اور تمام ورثاء کو ان کا حصۂ شرعی دے۔

حوالہ جات
البحر الرائق (5/278):
"الأسباب ثلاثة مثبت للملك، وهو الاستيلاء، وناقل للملك، وهو البيع ونحوه، وخلافة، وهو الميراث والوصية."
الدر المختار (6/463):
"اعلم أن أسباب الملك الثلاثة ناقل كبيع وهبة، وخلافة كإرث، وإصالة وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب شبكة لصيد."
الأشباه والنظائر (ص:222):
"الحق لا يسقط بتقادم الزمان."
صحیح ابن حبان (13/316):
عن أبي حُمَيد الساعدي، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:  «لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ أَنْ يَأْخُذَ عَصَا أَخِيهِ بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ».
رد المحتار (29/351):
"وشروطه [الميراث]: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل، والعلم بجهة إرثه."
الدر المختار (6/762):
"(ويستحق الإرث)، ولو لمصحف، به يفتى. وقيل: لا يورث، إنما هو للقارىء من ولديه صيرفية، بأحد ثلاثة: (برحم ونكاح) صحيح، فلا توارث بفاسد ولا باطل إجماعا. (وولاء)."
مشكاة المصابيح (2/197):
"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة».

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

14/رمضان المبارک/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب