021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ورثاء کا آپس میں اپنا حصۂ میراث تبدیل کرنے کا حکم
80079.62میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے والد صاحب نے اپنے والد صاحب: حاجی محمد رمضان سے ملنے والی جائیداد میں ایک بڑی حویلی (تقریباً 3 کنال کی) حاصل کی تھی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد میرے بھائی: شفاء اللہ اُس حویلی کے مختیار کار تھے۔ جب میری شادی ہوئی تو انہوں نے حویلی میں سے صرف 12 مَرلے مجھے دیے۔ اور ایک بہن: صفیہ بی بی کو 2 مَرلے دیے۔ باقی ساری حویلی اُن کے قبضے میں ہے، جس میں مہمانوں کی بیٹھک، رہائش کے لیے الگ مکانات اور جانوروں کے لیے الگ جگہیں شامل ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مَیں حویلی میں سے اپنی بہنوں کا حصہ خود لے کر اُس کے بدلے میں قیمت ان کو ادا کر سکتا ہوں؟ یا مجھے کوئی وارث اپنا حصہ دینا چاہے تو وہ مَیں لے سکتا ہوں؟ حویلی کی شرعی تقسیم بھی فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مالِ میراث میں سارے شرکاء کا شرعی حق متعین ہے، اور اگر کوئی وارث اپنا حقِ میراث کسی دوسرے وارث کو فروخت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ کی بہنیں مالِ میراث میں سے اپنا حق چھوڑ کر اُس کا عوض لینے پر راضی ہیں تو آپ اس کے بدلے میں قیمت ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ قیمت اُس دن کے اعتبار سے طے کی جائے گی جس دن آپ بہنوں سے ان کی جائیداد لینے کا معاہدہ کریں گے۔ نیز تقسیمِ وراثت کے بعد اگر کوئی وارث اپنا حق آپ کو بخوشی دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔

اور مذکورہ حویلی کی شرعی تقسیم میں آپ کی والدہ کا بھی حق ہے، کیونکہ سوال نمبر 2 میں آپ کی تصریح کے مطابق والد صاحب کے انتقال کے وقت آپ کی والدہ حیات تھیں، لہٰذا وہ بھی میراث کی حقدار ہیں۔ اور اگر اب وہ دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں، تو ان کا حصۂ میراث آپ سب بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم ہوگا۔ حویلی کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اُس کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے درجِ ذیل نقشے کے مطابق تمام ورثاء کو دے دیں:

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

بیوہ

ایک حصہ

%12.5

شفاء اللہ

2 حصے

%25

امان اللہ

2 حصے

%25

صفیہ بی بی

ایک حصہ

%12.5

ثریا بی بی

ایک حصہ

%12.5

ذکیہ بی بی

ایک حصہ

%12.5

اگر مذکورہ بالا طریقے کے مطابق حویلی کی تقسیم ممکن نہ ہو تو پھر اُس حویلی کی قیمت لگائی جائے گی، اور ورثاء میں سے جو وارث قیمت ادا کرکے حویلی لینا چاہے، لے سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بھی وارث حویلی کی قیمت ادا کرکے اُس کو لینے پر راضی نہ ہو، تو پھر حویلی کسی ایسے بندے کو فروخت کی جائے گی جو اُس کی مکمل قیمت ادا کرنے پر راضی ہو، اور وہ قیمت مذکورہ بالا نقشے کے مطابق ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص:230):
"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء، لكن إذا تعلق حق الغير به، فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال."
مجلة الأحكام العدلية (ص:210):
"مال المتوفى المتروكة مشتركة بين الورثة على حسب حصصهم."
الدر المختار (5/642):
"(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة، وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له، (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له، (أو) على العكس، أو عن نقدين بهما، (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه، (قل) ما أعطوه (أو كثر)، لكن بشرط التقابض فيما هو صرف. (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح، (إلا أن يكون ما أعطى له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا. ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه. شرنبلالية وجلالية. ولو بعرض جاز مطلقا، لعدم الربا، كذا لو أنكروا إرثه؛ لأنه حينئذ ليس ببدل، بل لقطع المنازعة."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

14/رمضان المبارک/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب