80080.62 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
حاجی محمد صدیقؒ کے انتقال کے بعد اُن کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی حفاظت، اُس کی شرعی تقسیم اور تمام ورثاء کو اُن کا حق پہنچانا کس کی ذمہ داری تھی؟
مرحوم کی 5 اولاد ہیں۔ دو بیٹے: شفاء اللہ، محمد امان اللہ اور تین بیٹیاں: صفیہ بی بی، ثریا بی بی، ذکیہ بی بی ہیں۔ شفاء اللہ بڑے بیٹے ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مالِ میراث کی نگہداشت میں اصل ترتیب یہ ہے کہ میت نے جس کو وصی مقرر کیا ہے، وہ اُس کی نگرانی اور شرعی تصرفات کرنے کا حقدار ہے۔ لیکن اگر میت نے اپنی زندگی میں کسی کو وصی مقرر نہیں کیا، تو اُس کے ورثاء یا خاندان میں سے جو سمجھدار، دین کا بقدرِ ضرورت عالم اور اللہ کے احکامات کی پاسداری کرنے والا ہوگا، وہ اپنے مرحوم کی نیابت میں مالِ میراث کا نگران ہوگا۔ سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر حاجی محمد صدیقؒ کے ورثاء میں سے شفاء اللہ میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ اپنے والد کے مال میں خیانت نہ کرتا، اور سارے ورثاء کو ان کا حق دیتا، تو خاندان کے سمجھدار لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ اُس کو نا انصافی کرنے سے روکتے، اور مرحوم کے مال کی حفاظت کے لیے کسی کو متعین کرتے۔ تاہم چونکہ اب تک مالِ میراث کا نگران شفاء اللہ تھا، لہٰذا اگر اُس نے کہیں کسی کے ساتھ کوئی حق تلفی کی ہے تو وہ اس نقصان کو پورا کرنے کا ذمہ دار ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار (6/174):
"(ووليه [الصبي] أبوه، ثم وصيه) بعد موته، ثم وصي وصيه. كما في القهستاني عن العمادية. (ثم) بعدهم (جده) الصحيح، وإن علا، (ثم وصيه)، ثم وصي وصيه. قهستاني. زاد القهساني و الزيلعي: ثم الولي بالطريق الأولى، (ثم القاضي أو وصيه)، أيهما تصرف، يصح ... هذا في المال."
محمد مسعود الحسن صدیقی
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
14/رمضان المبارک/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |