021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حقِ شفعہ ثابت ہونے کی شرائط
80081.62میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میری بہن............ نے اپنے رقبے  میں سے دو کنال اراضی احمد سعید کو فروخت کردی تھی، مجھے جب اس بیع کا علم ہوا تو مَیں نے اسی جگہ حقِ شفعہ دائر کرنے کا اعلان کر دیا تھا، اور اپنے وکیل کے ذریعہ نوٹس بھجوا دیا تھا۔ گورنمنٹ کے مطابق 6 لاکھ روپے کا تہائی حصہ: 2 لاکھ روپے بینک میں جمع کروا کر اُس کی رسید عدالت میں جمع کروا دی تھی۔ مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اس رقبے پر شرعاً میرا حق فائق ہے یا اُس خریدار کا جس کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق ہے، نہ ہی اس کا رقبہ ہمارے رقبے کے قریب ہے اور نہ ہی اُس کی کسی حوالے سے کوئی حدود ہمارے ساتھ ملتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ شفعہ ثابت ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب شفیع کو بیع کا علم ہو تو اُسی مجلس میں وہ گواہوں کے سامنے شفعہ کا مطالبہ کردے، پھر اگر فروخت کنندہ مبیع (بیچی جانے والی جائیداد) شفیع کو دینے پر راضی نہ ہو تو ایک ماہ کے اندر اندر عدالت میں حقِ شفعہ کا دعویٰ دائر کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر آپ نے اسی مجلس میں جس میں آپ کو بیع کا علم ہوا تھا، شفعہ کا مطالبہ گواہوں کی موجودگی میں کر لیا تھا، یا آپ کی بہن کی طرف سے شفعہ کا مطالبہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں آپ نے ایک ماہ کے اندر اندر عدالت میں دعویٰ دائر کردیا تھا، تو اُس بیچی جانے والی زمین میں آپ کا حق فائق ہے۔

حوالہ جات
الهداية (4/24):
"قال: الشفعة واجبة للخليط في نفس المبيع، ثم للخليط في حق المبيع، كالشرب والطريق، ثم للجار."
الهداية (4/26):
"قال: والشفعة تجب بعقد البيع. ومعناه: بعده ... قال: وتستقر بالإشهاد. ولا بد من طلب المواثبة ... قال: وإذا علم الشفيع بالبيع، أشهد في مجلسه ذلك على المطالبة."
الهداية (4/28):
"قال محمد رحمه الله: إن تركها [الشفعة] شهرا بعد الإشهاد، بطلت، وهو قول زفر رحمه الله. معناه: إذا تركها من غير عذر. وعن أبي يوسف أنه إذا ترك المخاصمة في مجلس من مجالس القاضي، تبطل شفعته؛ لأنه إذا مضى مجلس من مجالسه، ولم يخاصم فيه اختيار، دل ذلك على إعراضه وتسليمه. وجه قول محمد: أنه لو لم يسقط بتأخير الخصومة منه أبدا، يتضرر به المشتري؛ لأنه لا يمكنه التصرف حذار نقضه من جهة الشفيع، فقدرناه بشهر؛ لأنه آجل، وما دونه عاجل."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

14/رمضان المبارک/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے