021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مالِ میراث کسی وارث کے نام منتقل کرنے کا حکم
80082میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کا انتقال 28/اگست 1983ء کو ہوا تھا۔ انہوں نے جو کچھ جائیدادیں چھوڑی تھیں، وہ سب ان کے نام تھیں۔ البتہ بعض حصہ (تقریباً 121 کنال، 8 مرلے) کا انتقال مرحوم کے دونوں بیٹوں نے اپنے نام کروا لیا تھا، لیکن اُس کی قیمت مرحوم کے ترکہ سے ہی ادا کی گئی تھی۔ جس وقت بیٹوں کے نام پر انتقال ہوا تھا، اُس وقت ذکیہ اور امان اللہ نابالغ تھے، اور بڑے بیٹے: شفاء اللہ کا کہنا ہے کہ مَیں نے اپنے سب بھائی اور بہنوں کی رضامندی سے انتقال دونوں بھائیوں کے نام کروایا ہے۔ حالانکہ بہنیں اس سے لاعلم ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا تقسیم کا اعتبار کرکے دونوں بھائیوں کے نام پر جو حصہ ہے، انہیں کی ملکیت سمجھا جائے گا یا سارے ورثاء اُس کے حقدار ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ صورت میں وہ جائیداد جو آپ دونوں بھائیوں نے اپنے نام کروا لی ہے، درحقیقت اُس میں سب ورثاء کا حق ہے۔ لیکن اگر آپ کی بہنیں اُس جائیدا کو آپ لوگوں کی ملکیت قرار دے کراُس کے بدلہ میں والد صاحب کے دوسرے اموال میں سے حصۂ میراث لینے پر راضی ہیں، تو ایسا کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر بہنیں اُن جائیداد کی تقسیم چاہ رہی ہوں تو پھر وہ جائیداد بھی سارے ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔ نیز چونکہ جائیداد نام پر منتقل کروانے کے وقت جو کچھ اخراجات کیے گئے تھے، وہ والد صاحب کے مال سے ادا کیے گئے تھے، لہٰذا اُن اخراجات میں بھی آپ کی بہنوں کا حق ہے، اور اس کو ادا کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
البحر الرائق (8/557):
"المراد من التركة ما تركه الميت."
المجلة (ص:210):
"مال المتوفى المتروكة مشتركة بين الورثة على حسب حصصهم."
تكملة رد المحتار (1/349):
"وشروطه ... وجود وارثه عند موته حيا حقيقة، أو تقديرا كالحمل والعلم بجهل إرثه."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

14/رمضان المبارک/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب