021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"تم نے میرا مزید دماغ خراب کیایا کروگی تو ابھی طلاق دیتا ہوں”کہنےکا حکم
80076طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

مجھے طلاق سے متعلق ایک شرعی مسئلہ پوچھنا ہے .پوچھنا یہ ہے ہیں  کہ اگر کوئی شخص مشروط طلاق دیتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ "اگر تم نے میرا مزید دماغ خراب کیایا کروگی تو میں ابھی تمہیں طلاق دیتا ہوں"تو کیایہ الفاظ دھمکی طلاق میں شمار ہونگے یا وقوع طلاق میں کیونکہ اس شخص کا کہنا ہے کہ اسکی طلاق دینے کی نیت نہیں تھی اس سے مطلب یہ تھا کہ طلاق ابھی دے نہیں رہا بلکہ ابھی دیتا ہوں۔جیسے ہم عام بول چال یا عرف میں کسی کام کے کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ ابھی تھوڑی دیر میں ناشتہ کرتا ہوں یا ابھی تھوڑی دیر میں نہاتا ہوں یا ابھی سامان لاتا ہوں یا ابھی یہ کام کرتا ہوں وغیرہ۔یہ مطلب نہیں تھا کہ میں نے طلاق دے دی ہے۔اگر ان معنوں میں کوئی کسی کو طلاق کے الفاظ بولے تو اسکا شریعت میں کیا حکم ہے؟ مزید یہ جو شرط میں ہے کہ اگر مزید دماغ خراب کیا تو جس بات پر دماغ خراب ہوا ہو اسکے بعددماغ خراب کرنے والی کوئی بات نہ ہوئی ہو تو اس وقت کےگزرنے کے بعد کیا یہ شرط غیر مؤثر ہو جاتی ہے؟ یا بعد میں جب بھی کسی بات پر دماغ خراب ہوگا تو یہ شرط لاگو ہوگی۔۔اس طرح کے الفاظ کیا دھمکی طلاق میں شمار ہونگے یا وقوع طلاق میں؟ برائے مہربانی اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں۔۔جزاکم اللہ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں " اگر تم نے میرا مزید دماغ خراب کیا یا کرو گی تو میں ابھی تمہیں طلاق دیتا ہوں" چونکہ شرط وجزا کا جملہ ہے اور شوہر کی نیت بھی اس جملے سے طلاق دینے کی نہیں، بلکہ شرط پائے جانے پر طلاق دینے کی نیت ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں اگر عورت نے یہ جملہ سننے کے بعد مزید کوئی ناچاقی اور تلخی کی بات نہ کی ہو اور خاموش ہوگئی ہو تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ شرط موثر رہی۔کیونکہ  مذکورہ صورت میں " مزید" اور " ابھی " کے الفاظ سے یہ واضح ہے کہ یہ جملہ وقتی طیش کے تحت ادا ہوا ہے اس سے مستقبل کے تمام اس جیسے مواقع پر تعلیق طلاق مقصود نہیں ہے (اس کو فقہی اصطلاح میں یمین فور کہا جاتا ہے) ، لہذا اس موقع کے بعد اگر ان کے درمیان ایسی تلخی ہو جاتی ہے تو اس سے طلاق واقع نہ ہوگی، تاہم مستقبل میں تلخی کے ماحول میں جانے سے اجتناب ضروری ہے۔(ماخوذ از تبویب فتوی نمبر 76429)

حوالہ جات
الدر المختار (۳/۷۶۱): (وشرطه للحنث في ) قوله ( إن خرجت مثلا ) فأنت طالق أو إن ضربت عبدك فعبدي حر (لمريد الخروج) والضرب (فعله فورا) لأن قصده المنع عن ذلك الفعل عرفا ومدار الأيمان عليه وهذه تسمى يمين الفور تفرد أبو حنيفة رحمه الله بإظهارها ولم يخالفه أحد.
وفي الرد تحته : مطلب في يمين الفور ( قوله فورا ) سئل السغدي بماذا يقدر الفور ؟ قال بساعة ، واستدل بما ذكر في الجامع الصغير : أرادت أن تخرج فقال الزوج إن خرجت فعادت و جلست و خرجت بعد ساعة لا يحنث الخ۔

ولی الحسنین

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۲۲رمضان ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب