021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"ہمارا رشتہ نہ رہا” کہنے کا حکم
80087طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان حضرات اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

              مسماۃ ‘‘ثوبیہ عمر’’ بنت عمر دین سکنہ محلہ دین پورہ سمیجہ آباد نمبر :1 ،ملتان کا نکاح مسمّٰی ‘‘نصیر احمد’’ بن محمد یامین، سکنہ: وی بلاک نیو ملتان سے مورخہ 27دسمبر2017کو ہوا۔ شخص مذکوراپنی بیوی‘‘مسماۃ ثوبیہ’’ کو اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود وقیود اور دستور کے مطابق آباد نہ کرسکا، بلکہ وہ اس پر ظلم وستم کرتا رہا،جس کی وجہ سے کئی بار یہ معاملہ پنچایت میں بھی پیش ہوا،لیکن ہر مرتبہ شخص مذکور دستور کے مطابق آباد کرنے کے جھوٹے وعدے اورتسلیاں دے کر مصالحت میں کامیاب ہوجاتا رہا ، لیکن اپنی روِش سے باز نہیں آیااور دو سال قبل اپنا سامان اٹھا کر مسماۃ مذکوریہ کو کرایہ کے مکان میں اکیلا چھوڑ کر فرار ہو گیااور کوئی خبرگیری نہ کی، علاوہ ازیں اس نے عدالت میں جھوٹا مقدمہ بھی دائر کروا دیا۔جس کی وجہ سے مسماۃ ثوبیہ کو شخص مذکور سے شدید نفرت ہوگئی، اور تنگ آکر مسماۃ مذکوریہ نے جواب دعویٰ میں تنسیخ نکاح کی استدعا کی، کئی پیشیوں کے بعد فریقین کی موجودگی میں عدالت نے خلع کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی ڈگری مورخہ13 مئی2022ء کو جاری کردی اوراسی کے مطابق مسماۃ مذکوریہ نے عدت گزار لی۔

               عدالت سے فیصلہ جاری ہونے کے بعد شخص مذکور نے مختلف مواقع پر درج ذیل جملے کہے۔

1)  بات یہ ہے کہ جب اس کا رشتہ ہی نہ رہاہمارے ساتھ تو ہمارا لینا دینا ہی کیا رہ گیا۔ختم ہی ہو گئی نا بات، جو رشتہ ہی نہیں رہ گیا۔

2)  جج نے کہا کہ میں آپ کا نکاح فسخ کرتا ہوں، تو نکاح فسخ کرنے کی بات ہے ، وہ اس (جج) نے کردیا، وہ آگے نکاح کرسکتی ہے، اب رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔

3) یہ خلع ہے، خلع میں اس کو کہتے ہیں یہ نکاح فسخ کرنا، نکاح فسخ ہوچکا، اس پر عدت ہے، اس نے کر لی، وہ آگے نکاح کرسکتی ہے۔

4)  (خلع کا)فیصلہ ڈگری ہونے کے بعد میں نے آپ لوگوں کو تنگ نہیں کیا ، (خلع ڈگری ہونے سے پہلے کے واقعہ کی طرف اشارہ کرنے پر کہا) اس وقت وہ میری بیوی تھی۔

 شخص مذکور کی طرف سے مذکورہ بالا جملے کہے جانے پرذیل میں درج دو گواہوں کی شہادت بھی موجود ہے۔براہ کرم شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں کہ عدالت کی طرف سے خلع کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری ہونے اور شخص مذکور کی طرف سے مختلف مواقع پر مندرجہ بالا جملے کہے جانے کے بعد،کیا مسماۃ مذکوریہ دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے ؟

نوٹ: شخص مذکورہ کے مذکورہ بالا جملوں کی ریکارڈنگ بھی محفوظ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں طلاق کااختیارشوہرکےپاس ہوتاہےاوراگرعورت جدائی اختیارکرناچاہےتوباہمی رضامندی سےخلع کی صورت میں اختیارکرسکتی ہے۔البتہ اگرشوہرنہ توطلاق دیتاہواورنہ ہی خلع پرراضی ہوتوبعض اعذار کی صورت میں شریعت عورت کواختیاردیتی ہےکہ قاضی سےرجوع کرکےنکاح فسخ کروالےلیکن اس کےلئےضروری ہےکہ فسخ نکاح کےشرعی اصولوں کالحاظ کرتےہوئےنکاح کےفسخ ہونےکافیصلہ کیاگیاہو۔

لہٰذامذکورہ صورت میں اگرفسخ نکاح کامعتبرعذرموجودہوجیسےنان نفقہ نہ دینا،غیرمعمولی مارپیٹ (یعنی اس طرح کی مار جس سے بدن پر نشان پڑ جائے، زخم آ جائے یا ہڈی وغیرہ ٹوٹ جائے)  اورظلم کرنا وغیرہ تواگر ایسےکسی معتبرعذرکی بنیادپرفسخ نکاح کا مقدمہ کیا گیاہواورعدالت میں دو گواہوں سے اپنے دعوی کو ثابت کردیاجائےتب اس طرح گواہوں کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کرنے کے بعد اگر قاضی یا عدالت فسخ نکاح کا فیصلہ کردیتا ہے تو وہ فیصلہ نافذ ہوتاہے اور عدت گزارنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرنےمیں آزاد ہوتی ہےلیکن اگر گواہوں کے ذریعہ شوہر کا جرم ثابت نہیں کیاگیاہو یا وہ جرم اس درجہ کا نہ ہو جس سے عدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہو تو اس طرح کی عدالتی خلع کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی۔

فسخ نکاح کی بنیاد مذکورہ صورت میں محض شدید نفرت کو قرار دیا گیا ہے، لہذا یہ فسخ نکاح شریعت کی نظر میں معتبر نہیں ہے۔

رہی بات شوہر کے اس جملہ "بات یہ ہے کہ جب اس کا رشتہ ہی نہ رہاہمارے ساتھ تو ہمارا لینا دینا ہی کیا رہ گیا۔ختم ہی ہو گئی نا بات، جو رشتہ ہی نہیں رہ گیا" کی  تو بظاہر یہ حکایت طلاق کی غرض سے کہا گیا ہے نہ کہ انشاء طلاق کے لیے،لہذا اس کی وجہ سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے اور بار بار اس جملے کو دہرانے سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔

 

حوالہ جات
- كتاب الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي - المبحث الثالث التفريق للشقاق أو للضرر وسوء العشرة - المكتبة الشاملة ،ص7060
المقصود بالشقاق والضرر: الشقاق هو النزاع الشديد بسبب الطعن في الكرامة. والضرر: هو إيذاء الزوج لزوجته بالقول أو بالفعل، كالشتم المقذع والتقبيح المخل بالكرامة، والضرب المبرِّح، والحمل على فعل ما حرم الله، والإعراض والهجر من غير سبب يبيحه، ونحوه.
]رأي الفقهاء في التفريق للشقاق[
لم يجز الحنفية والشافعية والحنابلة التفريق للشقاق أو للضرر مهما كان شديداً؛ لأن دفع الضرر عن الزوجة يمكن بغير الطلاق، عن طريق رفع الأمر إلى القاضي، والحكم على الرجل بالتأديب حتى يرجع عن الإضرار بها.
وأجاز المالكيةالتفريق للشقاق أو للضرر، منعاً للنزاع، وحتى لا تصبح الحياة الزوجية جحيماً وبلاء، ولقوله عليه الصلاة والسلام: «لا ضرر ولا ضرار». وبناء عليه ترفع المرأة أمرها للقاضي، فإن أثبتت الضرر أو صحة دعواها، طلقها منه، وإن عجزت عن إثبات الضرر رفضت دعواها، فإن كررت الادعاء بعث القاضي حكمين: حكماً من أهلها وحكماً من أهل الزوج، لفعل الأصلح من جمع وصلح أو تفريق بعوض أو دونه، لقوله تعالى: {وإن خفتم شقاق بينهما، فابعثوا حكماً من أهله وحكماً من أهلها} [النساء:٣٥/ ٤].
رد المحتار (3/236)
ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً۔
الفتاوى الهندية (1/ 375)
ولو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى ولو قالت المرأة لزوجها لست لي بزوج فقال الزوج صدقت ونوى به الطلاق يقع في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في فتاوى قاضي خان.
الھندیة: (374/1، ط: دار الفکر)
"(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية".

ولی الحسنین

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 ۲۰ رمضان ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب