021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کی  تعمیرکےوقت یہ نیت کی کہ مسجد اوپرمدرسہ اورامام اورمؤذن کاگھرہوگاتوکیاحکم ہے؟
80164وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

سوال:بخدمت جناب حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے،ہماری مسجدطیبہ لیاقت آباد نمبر 4 میں واقع ہے،مسجد سےمتصل ایک پلاٹ جوکہ عرصہ آٹھ سال سےدس سال کرائےپررہا،اوراس کاکرایہ ضروریات مسجد میں خرچ ہوتارہا،اس پلاٹ میں کیٹرنگ والا تھا جواپنا ساراکام اس میں کرتاتھا،بعدازاں مسجد کمیٹی نےیہ فیصلہ کیاکہ ہم اس پلاٹ کو ازسرنو تعمیر کریں گے،اورابتدائےتعمیر میں ہی یہ نیت کی کہ پلاٹ کےنیچےوالا حصہ مسجدمیں داخل کریں گےاوراس سےاوپر ایک مدرسہ تعمیر کریں گےاور اس سےاوپر یا توآمدن کےلیےتعمیرکریں گےیعنی اس کاکرایہ مسجد کو دیں گےیاپھر امام مسجد اورمؤذن کاگھر تعمیرکریں گے،اوران حضرات کو رہائش دیں گے،چنانچہ تعمیر ہوئی اور نیچے کاحصہ مسجد سےملادیا اوراوپرمدرسہ تعمیر کیا اورا س سےاوپر امام کےلیےرہائش بناکران کورہائش دےدی اوراس سےاوپرمؤذن کاگھربنایا،اب کیامسجد انتظامیہ کایہ عمل صحیح ہے اورنیچےمسجد والےحصےمیں معتکفین جاسکتےہیں یا نہیں ؟

مسجدانتظامیہ نےدارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پراس قسم کےجواز کافتوی دیکھ کر ہی کام شروع کیاہے،کیاانتظامیہ کایہ عمل شرعاٹھیک ہےیانہیں برائےکرم جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجد شرعی تحت الثری سے لے کرآسمان کی فضا تک مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے، لہٰذا مسجد شرعی کے تمام حصوں کو( خواہ نچلا حصہ ہو یا اوپر والا حصہ )مسجد کے علاوہ کسی دوسرے استعمال میں لانا صحیح نہیں ہے۔

البتہ اگرتعمیرکرواتےوقت مسجد کےاوپریانیچےکی جگہ کو مسجد کے مصالح مثلا مدرسہ  کی تعمیریا امام صاحب اور موٴذن کی رہائش کے لیےخاص کر لیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کی گنجائش ہے۔ایسی صورت میں مسجد کےاوپروالی جگہ یانیچےوالی جگہ(جس کومسجدبنانےکی نیت نہیں تھی) مسجدشمارنہ ہوگی،خاص مسجد بنانےکی نیت سےجو جگہ تعمیر کی جائےگی وہی مسجد شرعی شمارہوگی۔

صورت مسئولہ میں پلاٹ کوازسرنوتعمیر کرتےوقت اگرمسجد کمیٹی نےواقعتامذکورہ بالانیت کی تھی توایسی صورت میں چونکہ تعمیرکرنےسےپہلےہی مسجد کی نیت نہیں تھی،اس لیےمسجد کےاوپردوسری ، تیسری اورچوتھی  منزل مسجد میں داخل نہیں ہوگی،لہذامذکورہ مسجد کی جگہ کےاوپرمدرسہ  اور مکان بناناشرعا درست ہوگا۔

موجودہ صورت میں نیچےکاحصہ جو بعدمیں تعمیرکرتےوقت بھی مسجد کی نیت سےبنایاگیاہےصرف وہی مسجد شمار ہوگا اوراس میں معتکفین جاسکتےہیں،اس سےاوپرمدرسہ ،یاامام اورموذن کی جگہ میں معتکفین نہیں جاسکتے۔

حوالہ جات
"الدر المختار للحصفكي" 1 / 707:
(و) كرهه تحريما (الوطئ فوقه، والبول والتغوط) لانه مسجد إلى عنان السماء۔
"رد المحتار" 5 / 76:وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي ،بقي لو جعل الواقف تحته بيتا للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق ؟ لم أره صريحا ، نعم سيأتي متنا في كتاب الوقف أنه لو جعل تحته سردابا بالمصالحة جاز۔
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق "4 / 176:( قوله والوطء فوقه والبول والتخلي ) أي وكره الوطء فوق المسجد وكذا البول والتغوط لأن سطح المسجد له حكم المسجد۔
"الفتاوى الهندية" 2 / 41:( ومنها ) أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور۔۔وسطح المسجد له حكم المسجد .
"رد المحتار 17 / 227:
 فرع ] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح ، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية۔
"رد المحتار 17 / 225:
قال في البحر : وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى { وأن المساجد لله } - بخلاف ما إذا كان السرداب والعلو موقوفا لمصالح المسجد ، فهو كسرداب بيت المقدس هذا هو ظاهر الرواية۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

27/شوال      1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب