021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کے شروع کیے گئے کاروبار کی وراثت کا حکم
80185میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم السلام عليكم ورحمة اللّٰه وبركاته! میرا نام محمد الیاس ہے ، میں رحیم یار خان، پنجاب، پاکستان کا رہنے والا ہوں میرا سوال وراثت کے حوالے سے ہے۔ میرے والد صاحب نے 1970 میں اپنے سرمائے سے بازار میں ایک کرائے کی دکان لے کر مٹھائی کا کاروبار شروع کیاکاروبار بڑھتا گیاپھر اپنے سرمائے سے ہی مٹھائی بنانے کے لیے ایک کارخانہ بھی کرائے پر لیا کاروبار اچھا چلتا رہا اور اس سے جائیداد اور اثاثے بھی بنے پھر میرے والد 1993 میں کاروباری طور پر مقروض ہو گئے اور سپورٹ کے لیے اپنے بڑے بیٹے کو اپنے ساتھ کاروبار میں بطور عامل شامل کیا 2004 میں والد صاحب وفات پا گئے اس وقت کوئی کاروباری قرضہ نہیں تھا جبکہ والد کے سرمائے سے شروع کیا گیا مٹھائی کا کاروبار اپنی جگہ موجود تھا اور مضبوت بھی ہو گیا تھا، ہم نے والد کا کاروبار اور وراثت کی کوئی چیز تقسیم نہیں کی جبکہ بڑے بھائی نے والد کا کاروبار خود سنبھالے رکھا اور اسی کاروبار سے ہماری سپورٹ کرتے رہے اور اسی کاروبار کی بچت سے وہ دکان بھی خرید لی اور وہ کارخانہ بھی اور یہ دونوں چیزیں اور والد کی وفات کے بعد اسی کاروبار کی بچت سے بننے والے تمام اثاثے اور جائیداد اپنے نام کروا لی ہم نے کہا کہ والد کے کاروبار میں ہم آپ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں جس پر بڑے بھائی نے کہا کہ دکانیں کرائے پر تھی اس لیے کاروبار کی کوئی وراثت نہیں بنتی (نوٹ۔دکان کرائے پر تھی لیکن اس دکان پر کیے جانے والا کاروبار والد صاحب کا تھا اور مکمل طور پر والد کے سرمائے سے شروع ہوا تھا) محنت میں نے کی اور میں آپ کی سپورٹ ہمدردی طور پر کرتا رہا ہوں۔ رحیم یار خان کے علمائے اکرام یہ کہتے ہیں کہ کرائے کی دکانوں میں کیے جانے والے کاروبار کی وراثت نہیں ہوتی جبکہ ہم نے نومبر 2015 کے جامعتہ الرشید کے ایک سیمینار میں علمائے اکرام کی گفتگو سنی جس میں انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ والد کے سرمائے سے شروع کیے گئے والد کے کاروبار میں سب ورثاء کا حصہ ہوتا ہے۔علمائے اکرام سمجھتے ہیں کہ شاید ہم دکان کی وراثت مانگ رہے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ دکان کرائے کی ہے جسکی ملکیت نہیں ہوتی اور نہ ہی وراثت لیکن ہمارا مسئلہ دکان کا نہیں بلکہ اس دکان پر کیے جانے والے کاروبار کاہے جو کہ مکمل طور پر میرے والد کا تھا اور میرے والد کے سرمائے سے شروع ہوا تھا اور ان کی وفات تک اس کاروبار میں کوئی شراکت دار بھی نہیں تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے والد کے اس کاروبار میں بھی ہم سب بہن بھائی برابر کے شریک ہیں یا نہیں؟ اگر والد کے اس کاروبار میں ہمارا بھی حصہ ہے تو آج اس کاروبار کی تقسیم کیسے ہوگی وضاحت فرما دیں۔ کیا کاروبار کے ساتھ ساتھ والد کے سرمائے سے شروع کیے گئے اس کاروبار کے نفع سے اب تک بننے والے تمام اثاثوں اور جائیداد میں بھی سب ورثاء کا حصہ ہوگا یہ نہیں یہ بھی وضاحت فرما دیں۔ شکریہ! والد کی تاریخ وفات : 27 نومبر، 2004

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 صورتِ مسئولہ میں شریعت کی نظر میں آپ کے والد مرحوم کاروبار کے مالک تھے، ان کی وفات کے بعد اس کاروبار پر بھی دیگر اموال کی طرح میراث کے احکام لاگو ہوں گے۔ ان کے تمام شرعی ورثہ کو شرعی اصولوں کے مطابق حصہ ملے گا۔

ورثہ نے میت کی وفات کے بعد میراث تقسیم نہ کر کے غلط کام کیا ہے۔ ابھی تمام ورثہ پر لازم ہے کہ وہ شرعی اصولوں کے مطابق میراث تقسیم کر لیں۔

چونکہ میت کی وفات کے بعد کاروبار کو تقسیم نہیں کیا گیا اس لیے تمام ورثہ اپنے شرعی حصہ کے تناسب سے اس کاروبار میں شریک سمجھے جائیں گے، اس لیے میت کی وفات سے اب تک کاروبار کی مالیت میں جو اضافہ ہوا ہے،اس میں سے بھی  سب کو ان کے شرعی حصے کے حساب سے حصہ ملے گا۔ البتہ جو بھائی کاروبار کو باقاعدہ سنبھالتے رہےہیں، انہیں عرف کے مطابق اپنی خدمات کی اجرت مثل لینے کا حق حاصل ہو گا یعنی ان جیسی صلاحیت والا آدمی کسی کے پاس یہی کام کرتا تو اسے جتنی اجرت ملتی اتنی اجرت یہ بھی لے سکتے ہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/325):
"الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله."
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (8/ 53):
"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم ، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة ؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما ، انظر المادة ( 1308 ) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة ؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة ( 88 )"
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (8/ 102):
"إذا بذر بعض الورثة الحبوب المشتركة بين جميع الورثة في الأراضي المورثة أو في أراضي الغير بإذن الورثة الآخرين أو إذن وصيهم أو بإذن القاضي إذا كان الورثة صغارا فتكون الحاصلات مشتركة بينهم جميعا ، والحال الذي يوجب أن تكون الحاصلات مشتركة بينهم هو كون البذر مشتركا بينهم وكون الوارث الزارع قد زرع بإذن أصحاب الحصص الآخرين سواء زرع في الأراضي الموروثة أو في أراضي الغير أي في الأرض المأجورة أو المستعارة ( الفتاوى الجديدة ) أو في ملكه الخاص ، وفي هذه الصورة يكون الزارع أصيلا عن نفسه ووكيلا عن شركائه في الزراعة"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 42):
"وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له.
وفي الدرر: دفع غلامه أو ابنه لحائك مدة كذا ليعلمه النسج وشرط عليه كل شهر كذا جاز، ولو لم يشترط فبعد التعليم طلب كل من المعلم والمولى أجرا من الآخر اعتبر عرف البلدة في ذلك العمل"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 42):
"(قوله فالعبرة لعادتهم) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل وإلا فلا. (قوله اعتبر عرف البلدة إلخ) فإن كان العرف يشهد للأستاذ يحكم بأجر مثل تعليم ذلك العمل، وإن شهد للمولى فأجر مثل الغلام على الأستاذ درر"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

02/ذوالقعدہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے