021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چندہ میں آئے ہوئے جعلی نوٹوں کے ضمان اور معطی کی زکوۃ کا حکم
80173وقف کے مسائلمدارس کے احکام

سوال

دینی اداروں میں زکوۃ ودیگر صدقات واجبہ کی رقوم  میں بسااوقات جعلی نوٹ آجاتاہے،اس بارے میں مندرجہ ذیل صورتیں پیش آتی رہتی ہیں:

  • چندہ بکس میں جعلی نوٹ برآمدہوا۔
  • وکیل/سفیر نے رسید کٹوادی، بعد میں جعلی نوٹ کاعلم ہوا اور نوٹ دینے والے کاعلم متعین طورپر  نہیں (اس کی صورت کبھی یوں پیش  آتی ہے کہ ایک شخص متعدد افراد سے بطورِ وکیل رقوم لے کر رسیدیں کٹوادیتاہے)، ایسی صورت میں  وکیل ضامن ہوگایانہیں؟ مختلف معطین کی اکھٹی  ایک رسید یامتعدد رسیدیں کاٹنے کے بعد جعلی نوٹ کے معطی کاپتہ لگانامشکل ہوتا ہے۔
  • کبھی کبھار براہ راست  رقوم جمع کرائی گئی ہوتی ہیں، لیکن ان میں جعلی نوٹ کاعلم بعد میں (حسابات کے وقت  یا بینک میں رقم رکھواتے وقت) ہوتاہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان صورتوں میں:

  1. جعلی نوٹ کاذمہ دارکون ہوگا اور اس کا ضمان کس پر لازم ہوگا؟ ادارے پر یا ادارے کی طرف سے رسید کاٹنے کے لیے نامزد شخص پر یا معطی کے وکیل پر یامعطی پر؟ نیز معطی کی زکوۃ کی ادائیگی کاحکم کیاہوگا؟
  2. جب رسید کٹ جاتی ہے تو ادارے کے ریکارڈ میں وہ رقم شمار ہوتی ہے، اب جب کوئی نوٹ جعلی نکلتا ہے تو اس حساب کتاب کا کیا کریں گے؟ کیونکہ ادارے کے ریکارڈ میں اتنی رقم لکھی ہوئی ہوتی ہے، جبکہ حقیقت میں وہ نوٹ کسی کام کا نہیں ہوتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں ادارہ، رسید کاٹنے والے شخص اور معطی کے وکیل پر ضمان لازم نہیں ہوگا۔ کیونکہ ان کو جو چیز جس مقصد کے لیے ملی تھی، انہوں نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی، نہ ہی اس کو ضائع یا خراب کیا۔ البتہ ادارہ کو چاہیے کہ رسید کاٹنے والے شخص کو اصلی اور جعلی نوٹ کی پہچان کرانے والا آلہ مہیا کرے۔ اسی طرح خود رسید کاٹنے والے اور معطی کے وکیل کو چاہیے کہ جب ان کو کوئی رقم دے تو ممکنہ طریقے سے دیکھ لیا کرے کہ وہ اصلی ہے یا جعلی؛ تاکہ بعد میں پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

     جہاں تک معطی کا تعلق ہے تو اگر اس نے قصدا جعلی نوٹ دیا ہو تو اس کی زکوۃ اور صدقہ وغیرہ ادا نہیں ہوگا، بلکہ اس دھوکہ دہی کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا۔ لیکن چونکہ وہ اس ادارے میں زکوۃ یا صدقہ وغیرہ دینے کا پابند نہیں، اس لیے ادارہ اس سے کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا۔ اور اگر اس نے جانتے بوجھتے جعلی نوٹ نہیں دیا، بلکہ کسی اور نے اس کو دھوکہ دے کر کسی معاملے میں جعلی نوٹ دیا تھا، اس نے لاعلمی کی وجہ سے اصلی سمجھ کر چندہ میں دیا تو اگر وہ معطی معلوم ہے تو اسے جعلی نوٹ واپس کر کے مطلع کیا جائے، اس صورت میں اس پر مطلع ہونے کے بعد زکوۃ اور دیگر صدقاتِ واجبہ کی ادائیگی لازم ہوگی۔ لیکن اگر نوٹ دینے والا شخص معلوم نہ ہو تو چونکہ اس کو مطلع کرنے کا کوئی راستہ نہیں اور اس نے اپنی سمجھ کے مطابق صحیح نوٹ دے کر اپنی زکوۃ وغیرہ ادا کی ہے؛ اس لیے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس نے جس نیت سے رقم دی ہوگی اس کی وہ عبادت ادا شمار ہوگی۔

(2)۔۔۔ اگر معطی معلوم ہو اور مطلع ہونے پر وہ اس کی جگہ صحیح نوٹ دیدیتا ہے تو اس کو اسی رسید کی مد میں فنڈ میں جمع کیا جائے اور اگر اس نے مطلع ہونے کے باوجود متبادل صحیح نوٹ نہیں دیا یا معطی معلوم ہی نہیں ہے تو حساب کتاب درست رکھنے کے لیے دو صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں: ایک یہ کہ کوئی دوسرا شخص اتنی رقم ادارہ کو دے اور اپنی مرضی سے اس کی رسید نہ کٹوائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ادارے کے ریکارڈ میں اس بات کی تصریح کردی جائے کہ اتنی رقم کا نوٹ جعلی آیا تھا جس کا علم رسید کٹنے کے بعد ہوا اور وہ جعلی نوٹ بطورِ ثبوت اس وضاحت کے ساتھ منسلک کر کے محفوظ کیا جائے۔

حوالہ جات
الدر المختار (2/ 352):
( دفع بتحر ) لمن يظنه مصرفا ( فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنا أعادها ) لما مر ( وإن بان غناه أو كونه ذميا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا ) يعيد؛ لأنه أتى بما في وسعه، حتى لو دفع بلا تحر لم يجز إن أخطأ.
رد المحتار (2/ 352):
قوله (لمن يظنه مصرفا) أما لو تحرى فدفع لمن ظنه غير مصرف أو شك ولم يتحر لم يجز حتى يظهر أنه مصرف، فيجزيه في الصحيح، خلافا لمن ظن عدمه، وتمامه في النهر. وفيه واعلم أن المدفوع إليه لو كان جالسا في صف الفقراء يصنع صنعهم أو كان عليه زيهم أو سأله فأعطاه كانت هذه الأسباب بمنزلة التحري، كذا في المبسوط، حتى لو ظهر غناه لم يعد. قوله (فبان أنه عبده) أي ولو مدبرا أو أم ولد، نهر و جوهرة. وهو مفاد من مقابلته بالمكاتب، وإنما لم يجز؛ لأنه لم يخرج المدفوع عن ملكه، والتمليك ركن. قوله (أو مكاتبه) لأن له في كسبه حقا فلم يتم التميك، زيلعي. والمستسعي كالمكاتب عنده، وعندهما حر مديون، بحر عن البدائع.
 قوله (أو حربي) قال في البحر: وأطلق أي في الكنز الكافر فشمل الذمي والحربي، وقد صرح بهما في المبتغى. وفي المحيط: في الحربي روايتان، والفرق على إحداهما أنه لم توجد صفة القربة أصلا، والحق المنع، ففي غاية البيان عن التحفة أجمعوا أنه إذا ظهر أنه حربي ولو مستأمنا لا يجوز، وكذا في المعراج معللا بأن صلته لا تكون برا شرعا، ولذا لم يجز التطوع إليه فلم يقع قربة اه.
أقول: ينافيه ما قدمناه قريبا عن المحيط عن السير الكبير من أنه لا بأس أن يعطي حربيا، إلا أن يقال إن معناه لا يحرم، بل تركه أولى، فلا يكون قربة فتأمل.  وفي شرح الكنز لابن الشلبي: قال في كفاية البيهقي: دفع إلى حربي خطأ ثم تبين جاز على رواية الأصل. وروى أبو يوسف عن أبي حنيفة أنه لا يجوز وهو قوله اه. قال الأقطع: وقال أبو يوسف: لا يجوز وهو أحد قولي الشافعي، وقوله الآخر مثل قول أبي حنيفة. قال في مشكلات خواهر زاده: الإجماع منعقد أنه لو كان متسأمنا أو حربيا تجب الإعادة اه. ونص في المختار على الجواز، وإطلاق الكنز يدل عليه، اه كلام ابن الشلبي. قلت: وكذا إطلاق الهداية و الملتقى الكافر يدل على الجواز وما نقله عن الأقطع يدل على أنه قول إمام المذهب فحكاية الإجماع على خلافه في غير محلها.  قوله (لما مر) أي في قوله فجميع الصدقات لا تجوز له اتفاقا. قوله (أو كونه ذميا) عدل عن تعبير الهداية وغيرها بالكافر بناء على ما مر. قوله (لا يعيد) أي خلافا لأبي يوسف. قوله (لأنه أتى بما في وسعه) أي أتى بالتمليك الذي هو الركن على قدر وسعه؛ إذ ليس مكلفا إذا دفع في ظلمة مثلا بأن يسأل عن القابض من أنت، وبقولنا "أتى بالتمليك" يندفع ما قد يقال إنه لو دفع إلى عبده أو مكاتبه يكون آتيا بما في وسعه، لكن يرد عليه الحربي لحصول التمليك ،وهذا يؤيد ما مر من عدم وجوب الإعادة فيه، والتعليل بعدم وجود صفة القربة محل نظر، فتدبر.  قوله (ولو دفع بلا تحر) أي ولا شك، كما في الفتح. وفي القهستاني بأن لم يخطر بباله أنه مصرف أو لا. وقوله "لم يجز إن أخطأ" أي إن تبين له أنه غير مصرف، فلو لم يظهر له شيء فهو على الجواز.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       1/ذو القعدہ /1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب