021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رخصتی کےبعد معلوم ہواکہ لڑکانشہ کاعادی ہےتوخلع کامطالبہ کیاجاسکتاہے
80199طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

سوال:کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلےکےبارےمیں کہ میں نے اپنی بیٹی کارشتہ ایک لڑکےکےساتھ کروایاہے،جب منگنی ہوئی تواس وقت بھی بظاہرلڑکا صحیح اورتندرست تھا،اس  میں ظاہری کوئی عیب نہیں تھا،منگنی کےبعد لوگوں نےکہاکہ مذکورہ لڑکا نشہ کرتاہےاورقرائن سےبھی یہی معلوم ہوتاتھاتومیں نےلڑکےکےوالدین سےرابطہ کیاتوانہوں نےکہا کہ لڑکےمیں ایسا کوئی عیب نہیں ،کسی قسم کانشہ نہیں کرتا،یہ لوگ ذاتی دشمنی کی وجہ سےایسی باتیں بناتےہیں،لیکن جب رخصتی ہوئی تورخصتی کےبعد پتہ چلاکہ واقعتا لڑکا بڑےبڑےنشوں میں ملوث ہے،اورمذکورہ لڑکےکی عادات اورحرکات بھی سب غیر شرعی ہیں ،اب سوال یہ ہےکہ

خلع کی نوبت شوہرکےنشہ اورعادات غیر شرعیہ کی وجہ سےآگئی ہے،حالانکہ شرعالڑکےکوحق مہرواپس کرکےخلع لیاجاسکتاہے،لیکن انہوں نےمنگنی کےوقت لڑکےکےنشہ کےعیب کوواضح نہیں کیا تھااورہماری معلومات کےباوجود بھی لڑکےکےعیب کوچھپاتےرہے،توکیا اب میں حق مہر کواپنی بیٹی کی عزت اوراپنےساتھ دھوکہ کی وجہ سےخلع کےبدلےرقم روک کر بغیرپیسوں کےخلع کرواسکتاہوں یاپوراحق مہر واپس کرکےخلع کروالوں شرعاکیاحکم ہے؟پوری تفصیل  کےساتھ جواب عنایت فرماکرممنون ومشکو ر فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرشوہرواقعتانشہ کاعادی ہےاوراس کےصحیح ہونے(نشہ چھوڑنے)کا کوئی امکان نہ ہوتو شوہرسےپہلےتوطلاق کامطالبہ کیاجائے،اگروہ بغیر کسی عوض کےطلاق دینےپرآمادہ نہ ہوتوشرعاخلع کامطالبہ  بھی کیاجاسکتاہے ۔

واضح رہےکہ خلع میں شوہرکی رضامندی ضروری ہوتی ہے،اس لیےشوہراگرخلع دینےپرراضی ہوتوخلع شرعامعتبر ہوگا،ورنہ شوہرکی رضامندی کےبغیرعدالت کی طرف سےخلع کافیصلہ معتبر نہ ہوگا۔

خلع  کے بدلے میں عورت سے جو کچھ لیا جاتا ہےاس کے بارے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر قصور شوہر کی طرف سے ہو تو دیانتاً بیوی سے مال یاکسی بھی چیز کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ۔ہاں  اگر قصور بیوی کا ہو تو اس صورت میں شوہر کےلیے مقدارِ مہر تک مال لینابلاکرا ہت جائزہے، مہر سے زیادہ لینامناسب نہیں۔

صورت مسئولہ میں سوال کی وضاحت کےمطابق چونکہ شوہرکےعیب کی وجہ سےخلع کی نوبت آئی ہے،اورمنگنی کےوقت سےشوہراوراس کےوالدین اس عیب کوچھپارہےتھے،ایسی صورت میں شوہرکےلیےشرعاجائزنہیں کہ وہ مہرکی واپسی  کامطالبہ کرے،لہذاموجودہ صورت میں شوہرسے مہرکوروکنےاوربغیرکسی عوض کےخلع یاطلاق کامطالبہ کیاجاسکتاہے،اگرشوہراس پرراضی ہوتوطلاق بائن ہوجائےگی اورنکاح ختم ہوجائےگا۔

پھربھی  اگرشوہرکی طرف سےمہرکی واپسی کامطالبہ ہوتوخلع کےلیےمکمل مہریاشوہرکی طرف سےجتنی رقم کامطالبہ کیاگیاہےاتنی رقم واپس کرناضروری ہوگا،کیونکہ اس صورت میں بھی  شوہرکومہر کی رقم وصول کرنےکااختیارہے(اگرچہ شریعت نےاس کو ناپسندیدہ کہاہےکہ غلطی بھی  اسی کی ہو اور وہ بیوی سےرقم کامطالبہ بھی کرے)خلع شرعادرست ہوجائےگا۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی فی سورۃ البقرة آیت  229 :
فان خفتم ألایقیماحدوداللہ فلاجناح علیہما فیماافتدت بہ۔
" الھندیة"1  /488 :                                       
اذاتشاقا الزوجان وخافاأن لایقیما حدوداللہ فلابأس بأن تفدی نفسہا منہ بمال یخلعہا بہ۔
"زادالمعاد" 2/238 :وفی تسمیتہ صلی اللہ علیہ وسلم الخلع فدیۃ دلیل علی أن فیہ معنی المعاوضۃ ولہذااعتبرفیہ رضاالزوجین ۔
"رد المحتار"12 / 121:
( وكره ) تحريما ( أخذ شيء ) ويلحق به الإبراء عما لها عليه ( إن نشز وإن نشزت لا ) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح ، وصحح الشمني كراهة الزيادة ، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

02/ذیقعدہ     1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب