021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مقررہ وقت سے پہلے قرض کی رقم کم کر کے ادا کرنا (الحط من المؤجل بشر اداءہ المعجل)
80206خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

 کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کا کسی کے اوپر قرض ہے اور ادا کرنے کا وقت مقرر ہے۔ اب مدیون اس قرض کو مقررہ وقت سے پہلے ادا کرنا چاہتا ہے اور وہ دائن (قرض دینے والے) سے کم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا ہے لیکن یہ عام رواج بن گیا ہے کہ وقت سے پہلے ادا کرنے پر کچھ کم کردیا جاتا ہے تو کیا اس عرف کی وجہ سے کم کرنا المعروف کالمشروط کے قائدہ کے تحت داخل ہوکر ناجائز ہوگا یا یہ جاائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مقررہ وقت سے پہلے قرض ادا کرنے کی صورت میں قرض کی رقم میں کمی کی شرط لگانا یا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، البتہ کسی پیشگی معاہدے ، شرط اور مقروض کے مطالبہ کے بغیر دائن اپنی خوشی اور رضامندی سے کچھ کمی کردے تو جائز ہے۔

     سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر دائن (قرض دینےوالا) اپنی خوشی اور رضامندی سے قرض کی رقم میں کمی کرتا ہے تو یہ درست ہے البتہ رواج یاعرف کی وجہ سے ایسا کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (14/ 63)
ولهذا قلنا أن المنفعة إذا كانت مشروطة في الإقراض فهو قرض جر منفعة وإن لم تكن مشروطة فلا بأس به حتى لورد المستقرض أجود مما قبضه فإن كان ذلك عن شرط لم يحل لأنه منفعة القرض وإن لم يكن ذلك عن شرط فلا بأس به لأنه أحسن في قضاء الدين وهو مندوب إليه بيانه في حديث عطاء قال استقرض رسول الله صلى الله عليه وسلم من رجل دراهم فقضاه وأرجح له فقالوا أرجحت فقال صلى الله عليه وسلم أنا كذلك نزن فإذا جاز الرجحان له من غير شرط فكذلك صفة الجودة قالوا وإنما يحل ذلك عند عدم الشرط إذا لم يكن فيه عرف ظاهر أما إذا كان يعرف أنه فعل ذلك لأجل القرض فالتحرز عنه أولى لأن المعروف كالمشروط

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۴/ذو القعدہ/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب