021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوا کے اثر سے نماز میں نسیان و اشتباہ لگنے اور بعض نمازیں قضا ہونے کا حکم
80230نماز کا بیانقضاء نمازوں کا بیان

سوال

میری مامی کا انتقال برین ٹیومر (دماغ کی رسولی) کے آپریشن کے دوران ہوا ہے، اس کی قضا نمازوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:

(1)۔۔۔ وہ بیماری کے دوران دماغ کی گولیاں کھاتی تھی جن میں نشہ ہوتا تھا، تقریبا پندرہ (15) دن ان کو ہائی ڈوز دی گئی تھی جس کی وجہ سے نشے کا اثر زیادہ ہوتا تھا اور وہ بھول جاتی تھی۔ نماز کے دوران بھی بھول جاتی تھی، مثلا کبھی سورۂ فاتحہ کی جگہ التحیات شروع کردیتی تھی، کبھی سجدوں کی تعداد کم زیادہ ہوجاتی تھی، جب ہم پاس ہوتے تھے تو ہم بتادیتے تھے مثلا جب فاتحہ کی جگہ التحیات پڑھتی تو ہم بتاتے کہ الحمد پڑھنا ہے، چنانچہ پھر وہ الحمد پڑھتی۔ ایک دفعہ ہمیں یقینی یاد ہے کہ تین سجدے کیے تھے، باقی کبھی ہم پاس ہوتے تھے، کبھی نہیں؛ اس لیے ہماری غیر موجودگی کی نمازوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیسی پڑھی ہوں گی۔ کیا یہ نمازیں ہوئی ہیں یا نہیں؟

(2)۔۔۔ بیماری کی شدت میں ہسپتال جاتے ہوئے کچھ نمازیں قضا ہوئیں۔ اس طرح تین دفعہ ہوا تھا، تینوں مرتبہ فجر کی نماز کے بعد ان کو ہسپتال لے جاتے اور عشاء کے بعد واپسی ہوتی۔ یہ تین مرتبہ ہسپتال مسلسل جانا نہیں ہوا، ہر مرتبہ چند دن کے وقفے سے جانا ہوتا تھا، ہر دفعہ چار نمازیں قضا ہوئی ہیں، اس طرح کل بارہ نمازیں ہوئیں۔ ہسپتال سے واپسی کے بعد اگلے دن کی نمازیں پھر حسبِ معمول پڑھتی تھی۔  

(3)۔۔۔ انہیں آپریشن کے لیے نشہ دیا گیا تھا، آپریشن اور اس کے بعد وفات تک پانچ (5) فرض نمازوں کا وقت گزرا، اس دوران وہ بالکل حواس میں نہیں تھی، صرف دو دفعہ تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں کھولی تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ ان نمازوں کے ادا ہونے یا نہ ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ ان پندرہ دنوں میں:

  1. آپ کی مامی نے جو نمازیں کسی کی تلقین کے بغیر خود درست ادا کی تھیں، وہ ادا ہوگئی ہیں۔
  2. جن نمازوں کے بارے میں آپ کو یقینی طور پر معلوم نہیں کہ اس میں انہوں نے کوئی غلطی کی تھی تو انہیں ادا سمجھا جائے گا۔
  3. جن نمازوں کے بارے میں آپ کو یقینی طور پر معلوم ہے کہ انہوں نے اس میں کوئی مفسدِ نماز غلطی کی تھی، اسی طرح جن نمازوں میں تلقن من الخارج پایا گیا تھا یعنی انہوں نے کسی کا لقمہ لیا تھا اور اس کے بتانے پر کوئی غلطی ٹھیک کی تھی، وہ نمازیں ادا نہیں ہوئیں۔ لہٰذا ان نمازوں کو لوٹانا ان پر لازم تھا۔ لأن هذه الحالة کانت غیر مستمرة و کانت بسبب هو من صنع العباد أي الدواء. فلا یشکل بما إذا وصل المریض إلی حال اشتبه علیه أعداد الرکعات والسجدات حیث صرح الفقهاء بعدم لزوم أداء الصلاة علیه وأفتوا بجواز صلاته ولو بالتلقن من الخارج، کما في الدر المختار مع رد المحتار: 2/100 وتقریرات الرافعي:2/104 والبحر الرائق:2/125 وغیرها من الکتب الفقهیة. والله أعلم بالصواب

(2)۔۔۔ اس صورت میں چونکہ ہر دفعہ قضا شدہ نمازوں کی تعداد پانچ سے کم تھی اور ہر مرتبہ وہ بعد میں نماز کی ادائیگی پر قادر ہوئی تھی، اس لیے ان نمازوں کی قضا ان کے ذمے لازم تھی۔

ورثا پر فدیہ لازم ہونے یا نہ ہونے اور اس کے مقدار کی تفصیل:  

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق آپ کی مامی کی جو نمازیں ادا نہیں ہوئیں یا جو نمازیں انہوں نے بالکل نہیں پڑھیں اور بعد میں ان کی قضا بھی نہیں کی، اب ان نمازوں کے فدیہ کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مرحومہ نے ان نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہے تو ان کے ترکہ (میراث) سے تجہیز وتکفین کے اخراجات اور قرضے نکالنے کے بعد بچ جانے والے مال کی ایک تہائی تک فدیہ دینا لازم اور ضروری ہے، اور اگر انہوں نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو ان کے ورثا اور رشتہ داروں کے ذمے فدیہ دینا لازم تو نہیں، لیکن اگر وہ ان نمازوں کا فدیہ دیدیں تو یہ مرحومہ کے ساتھ احسان ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ برئ الذمہ ہوجائے گی۔  ایک نماز کا فدیہ صدقۃ الفطر کی مقدار یعنی سوا دو کلو گندم یا سوا دو کلو گندم کا خالص آٹا یا اس کی   قیمت ہے۔ عشاء کی فرض نماز اور وتر کا فدیہ الگ الگ دینا ہوگا۔

(3)۔۔۔ اس دوران اگر وہ ہوش و حواس میں نہ ہونے کی وجہ سے نماز پڑھنے پر قادر نہیں تھی تو ان نمازوں کا فدیہ واجب نہیں؛ کیونکہ بعد میں انہیں ان نمازوں کی قضاء کا وقت ہی نہیں ملا۔

حوالہ جات
الدر المختار (2/ 102):
( ومن جن أو أغمي عليه ) ولو بفزع من سبع أو آدمي ( يوما وليلة قضى الخمس وإن زادت وقت صلاة ) سادسة ( لا ) للحرج. ولو أفاق في المدة فإن لإفاقته وقت معلوم قضى وإلا لا ( زال عقله ببنج أو خمر ) أو دواء ( لزمه القضاء وإن طالت ) لأنه بصنع العباد كالنوم.
رد المحتار (2/ 102):
قوله ( لأنه بصنع العباد ) أي وسقوط القضاء عرف بالأثر إذا حصل بآفة سماوية، فلا يقاس عليه ما حصل بفعله. وعند محمد يسقط القضاء بالبنج والدواء؛ لأنه مباح، فصار كالمريض كما في البحر وغيره. والظاهر أن عطف الدواء على البنج عطف تفسير وأن المراد شرب البنج لأجل الدواء، أما لو شربه للسكر فيكون معصية بصنعه كالخمر، وأنه لو شرب الخمر على وجه مباح كإكراه يكون كالبنج فيجري فيه الخلاف. ولا يرد على التعليل سقوط القضاء بالفزع من سبع أو آدمي كما مر لقولهم إن سببه ضعف قلبه وهو مرض أي فهو سماوي.  قوله ( كالنوم ) أي فإنه لا يسقط القضاء أيضا؛ لأنه لا يمتد يوما وليلة غالبا فلا حرج في القضاء بخلاف الإغماء لأنه مما يمتد عادة، بحر.
البحر الرائق (2/ 127):
 أطلق في الإغماء والجنون فشمل ما إذا كان بسبب فزع من سبع أو خوف من عدو فلا يجب القضاء إذا امتد إجماعا؛ لأن الخوف بسبب ضعف قلبه، وهو مرض. إلا أنه يرد عليه ما إذا زال عقله بالخمر أو أغمي عليه بسبب شرب البنج أو الدواء، فإنه لا يسقط عنه القضاء في الأول وإن طال اتفاقا؛ لأنه حصل بما هو معصية فلا يوجب التخفيف، ولهذا يقع طلاقه. ولا يسقط أيضا في الثاني عند أبي حنيفة؛ لأن النص ورد في إغماء حصل بآفة سماوية، فلا يكون واردا في إغماء حصل بصنع العباد؛ لأن العذر إذا جاء من جهة غير من له الحق لا يسقط الحق، وقال محمد يسقط القضاء إذا كثر لأنه إنما حصل بما هو مباح، كذا في المحيط.
الفتاوى الهندية (1/ 137-138)
ولو أغمي عليه بفزع من سبع أو آدمي أكثر من يوم وليلة يسقط عنه القضاء بالإجماع. ولو شرب الخمر حتى ذهب عقله أكثر من يوم وليلة لا يسقط. ولو شرب البنج أو الدواء حتى ذهب عقله أكثر من يوم وليلة لا يسقط عند الشيخين رحمهما الله تعالى، كذا في الخلاصة.  ولو نام أكثر من يوم وليلة يقضي.
بدائع الصنائع (1/ 107):
ولو عجز عن الإيماء وهو تحريك الرأس فلا شيء عليه عندنا. ……....لنا ما روي عن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي قال في المريض إن لم يستطع قاعدا فعلى القفا يومىء إيماء فإن لم يستطع فالله أولى بقبول العذر. أخبر النبي أنه معذور عند الله تعالى في هذه الحالة، فلو كان عليه الإيماء بما ذكرتم لما كان معذورا، ولأن الإيماء ليس بصلاة حقيقة، ولهذا لا يجوز التنفل به في حالة الاختيار، ولو كان صلاة لجاز كما لو تنفل قاعدا، إلا أنه أقيم مقام الصلاة بالشرع، والشرع ورد بالإيماء بالرأس، فلا يقام غيره مقامه.
ثم إذا سقطت عنه الصلاة بحكم العجز، فإن مات من ذلك المرض لقي الله تعالى ولا شيء عليه؛ لأنه لم يدرك وقت القضاء.وأما إذا برأ وصح، فإن كان المتروك صلاة يوم وليلة أو أقل فعليه القضاء بالإجماع. وإن كان أكثر من ذلك فقال بعض مشايخنا يلزمه القضاء أيضا؛ لأن ذلك لا يعجزه عن فهم الخطاب فيمنع الوجوب عليه، والصحيح أنه لا يلزمه القضاء؛ لأن الفوائت دخلت في حد التكرار، وقد فاتت لا بتضييعه القدرة بقصده، فلو وجب علیه قضاؤها لوقع في الحرج.
وبه تبين أن الحال لا يختلف بين العلم والجهل؛ لأن معنى الحرج لا يختلف؛ ولهذا سقطت عن الحائض وإن لم يكن الحيض يعجزها عن فهم الخطاب. وعلى هذا إذا أغمي عليه يوما وليلة أو أقل ثم أفاق قضى ما فاته وإن كان أكثر من يوم وليلة لا قضاء عليه عندنا استحسانا.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       4/ ذو القعدۃ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب