021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض میں بیع لاحق کی شرط لگانے کا حکم
80242خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص (آڑھتی ) لوگوں کو کھیتی اور کاشت کاری کے لیے پہلے  سے پیسے دیتا ہے ۔پھر لوگ ان سے بیج وغیرہ خرید کر کاشت کاری کرتے ہیں ، مثلاً ٹماٹر کے لیے پیسے دیے اس سے لوگ بیج خرید کر ٹماٹر کی کاشت کاری کرتے ہیں۔ پیسے دینے والوں میں سے بعض اس شرط پر پیسے دیتے ہیں کہ وہ زمیندار اس کو ٹماٹر بھیجے گا ۔ بعض بغیر شرط کے بطور قرض بھی دیتے ہیں مگرمقصود ان کا بھی ٹماٹر ہے  یعنی ٹماٹر کیلئے دیتے  ہیں ۔ پیسے دینے والا (آڑھتی ) اپنے پیسے اس طرح وصول کرتا ہے کہ وہ زمیندار جس نے پیسے لیےتھے وہ ٹماٹر بھیجتا ہے آڑھتی کو۔ آڑھتی پھر وہ ٹماٹر منڈی میں بیچتا ہے تو اس میں اپنے  پیسے بھی وصول کرتا ہے اور ساتھ ہی بیچنے کا کمیشن بھی لیتا ہےاور زائد رقم کاشت کار کو واپس کرتا ہے، تو یہ جائز ہے یا نہیں۔ اگر جائز نہیں تو جوازکی کیا صورت ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرض دے کر اس پر کوئی  نفع حاصل کرنا جائز نہیں ، یہ ربا(سود ) کے حکم میں آتا ہے۔اسی طرح  قرض دیتے وقت کوئی  ایسی شرط لگانا جس سے قرض دینے والے کو کوئی اضافی فائدہ حاصل ہووہ بھی ناجائز ہے۔ایسی شرط باطل ہے۔

سوال میں ذکر کردہ مسائل میں  قرض کے ساتھ   مقروض پر یہ شرط(صراحت کے ساتھ یا عرف قائم ہونے کی وجہ سے)  لگائی گئی ہے کہ وہ اپنا مال قرض دینے والے کو ہی بھیجے گا۔  اب اگر مقروض اس شرط کی وجہ  سےپابند ہوجاتا ہے اور اپنا مال کسی اور سے نہیں بکواسکتا تو یہ قرض سے اضافی فائدہ حاصل کرنا ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے  ،لیکن اگر مقروض  پابند نہیں ہوتا اور اپنا مال کسی کو بھی بھیج سکتا ہے،لیکن اس اختیار کے ہوتے ہوئےوہ اپنا مال اسی قرض دینے والے کے پاس لاتاہے تو ضروری ہے کہ یہ خرید وفروخت مارکیٹ ریٹ پر کی جائے   ۔اگر قرض دینے والوں کی طرف سے ریٹ ایسا دیاجاتا ہے جو مارکیٹ ریٹ سے کم ہو تو یہ  قرض پر نفع حاصل کرنا ہوگا جو کہ جائز نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)
وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 165)
(و) فيها (القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء آخر فلو استقرض الدراهم المكسورة على أن يؤدي صحيحا كان باطلا) وكذا لو أقرضه طعاما بشرط رده في مكان آخر (وكان عليه مثل ما قبض) فإن قضاه أجود بلا شرط جاز ويجبر الدائن على قبول الأجود وقيل لا بحر
المبسوط (24/ 28)
 وإذا أقرض الرجل الرجل قرضا على أن يكفل به فلان ؛ كان جائزا حاضرا كان فلان أو غائبا ضمن أو لم يضمن ، وكذلك لو شرط أن يحيله به على فلان ؛ لأن القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فلا يفسده الباطل ، بخلاف البيع فإنه لو شرط فيه كفالة أو حوالة من مجهول أو معلوم غير حاضر ؛ لم يرض بذلك فالبيع فاسد ؛ لأن الفاسد من الشروط مبطل للبيع فإنه يتعلق بالجائز من الشروط

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

07/ذی القعدہ/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب