021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں آدھی اولاد میں مال تقسیم کرنے کاحکم
80371میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

عرض  یہ ہے کہ  ایک  شخص  نے اپنی زندگی  میں  اپنی وراثت  کا مال  آدھی اولاد  کے درمیان تقسیم  کردیا  ،اور  بقیہ  اولاد جن کو  مال  نہیں ملا  ان کے بارے میں لکھا   کہ  جب میں مرجاؤں تو بقیہ جائداد  اور  مال یہ اولا د لے گی ،اب سوال یہ ہے کہ  اس کے مرنے کے بعد  بقیہ  جائداد   سب اولامیں تقسیم ہوگی  یا وصیت  کے مطابق عمل  کرتے ہوئے  آدھی اولاد میں  کو  ملے گی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی  میں ورثاء  میں مال تقسیم کرنا شرعا  اس کا حکم  ھبہ کا ہے ،اس میں  اصل حکم  یہ ہے کہ  لڑکے  اور  لڑکیوں کو  برابر  مال دیاجائے ،دینداری  ،خدمت گذاری  اوراحتیاج  جیسے  کسی وجہ ترجیح کے بغیر  مال  دینے میں اولاد میں سے کسی  ایک کو  دوسروں  پر ترجیح  نہ دیجائے ۔

اور ھبہ مکمل  ہونے کے لئے یہ بھی  ضروری کہ جس  بیٹا یا بیٹی کو  جو مال  دیا گیا  ہے  اس کو  باقاعدہ تقسیم کرکے اپنی ملک سے جدا کرکے اس کے حوالے کردیا جائے ۔اگر ھبہ کے بعد  با ضابطہ  تقسیم  کرکے  حوالے نہیں  کیاتو  شرعا  یہ ھبہ  نامکمل  اور غیر  معتبر  ہوتا  ہے ۔

اس تفصیل کی روشنی  میں زندگی  میں مال تقسیم کرنے کی  صورت میں اس بندے پر لازم تھا  کہ سب اولا  د کو  مال دیتا لیکن اگر اس نے عمدا ایسا  نہیں  کیا  تو اس نے گناہ  کا ارتکاب کیا ،اور جو  مال  اس نے بعض  اولاد کے درمیان تقسیم کیا   ہے  اس کا  حکم یہ  ہے کہ  اگرمال کوباقاعدہ  تقسیم  کرکے  ہرایک کو   قبضے میں دیکر اس کے حصے  کا مالک بھی بنادیا  تھا تو  سب اپنے  اپنے حصے  کے مالک  بن گئے ،ان حصوں  میں دوسرے ورثا ء  کاحق نہ ہوگا ۔  پھر  انتقال  کے وقت اس کی  ملک میں جومال  ﴿ جائداد ،سونا چاندی، نقدی وغیرہ ﴾ باقی تھا وہ مال میراث  کے قانون  کے مطابق تمام ورثا ء میں تقسیم ہوگا ۔ البتہ جن  ورثا  کو باپ نے  اپنی  زندگی میں  میراث کا  حصہ دیدیا  تھا ان پر اخلاقا  لازم  ہے کہ وہ دوبارہ میراث سے حصہ  نہ  لیں بلکہ   بقیہ  مال کوباپ کی وصیت کے مطابق بطور حصہ میراث  ان بھائی بہنوں میں تقسیم کریں جن   کو باپ نے  اپنی زندگی میں حصہ نہیں  دیا تھا۔

نوٹ ؛ یاد رہے کہ  اگر  مرحوم  کی  بیوی مرحوم کے  وقت زندہ  ہو  تو  میراث  میں اس  کا بھی  اٹھواں  حصہ  ہوگا ۔ 

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها،وإن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط لأن كلا منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به لأن شغله بغير ملك واهبه لا يمنع تمامها كرهن وصدقة لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية        

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

١۹ ذی  قعدہ  ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب