021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اس بات پرطلاق دی   کہ کسی کونہیں بتاؤنگا
80372طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلےکےبارےمیں کہ اگرکسی آدمی کو کسی ادارےوالوں نےغیر قانونی طورپرگرفتارکیا،اورپھر آزاد کرکےاس بات پرطلاق لی کہ آپ کسی کو نہیں بتاؤگے(یہ بات کہ کس کو نہیں بتاؤگےاس شرط کو اپنےذہن میں رکھاتھا ،صراحتا اس کونہیں بتایاتھا)

لیکن آزاد ہونےوالےبندےنےتین مرتبہ اس الفاظ سےطلاق دی کہ میرےاوپر میری بیوی طلاق ہو،میرے اوپر میری بیوی طلاق ہو،میرےاوپرمیری بیوی طلاق ہو،میں کسی کونہیں بتاؤنگا،توادارےوالوں نےاس کو یہ کہا کہ یہ بات نہ کروکہ کسی کونہیں بتاونگا،تواس آدمی نےکہا صحیح ہے،نہیں بتاؤنگا۔

جیل سےآزاد ہونےکےبعد جب کاروبارپرواپس آئےتولوگوں کوبتایاکہ مجھے ایسے پکڑاتھا،یعنی لوگوں کومعلوم ہوگیا۔پھراس بندےنےاس ادارےوالوں کوکال کرکےپوچھاکہ آپ نےجومجھ سےطلاق لی تھی،اس میں شرط کیا تھی؟توادارےوالوں نےکہاکہ ہماراطلاق لینےکامقصدیہ تھا کہ کسی سرکاری ادارےمیں ہمارےخلاف شکایت نہیں کروگے،عام لوگوں کوبتانا ہمارامراد نہیں تھا۔

جوا ب یہ مطلوب ہے کہ اس بندےکےصریح الفاظ سےطلاق دینےسےیہ طلاق واقعتا ہوگئی ہے ؟یایہ طلاق مذکورہ شرط پرموقوف رہےگی ،جوادارےوالوں نےطلاق کےوقت اپنے ذہن میں سوچی تھی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ شوہرنےاپنےالفاظ کو تعلیق کی صورت میں ذکرکیاہےاس لیےصورت مسئولہ میں تین طلاق معلق  شمارہوں گی(اگرچہ صراحتاشرط کےالفاظ  موجودنہیں اورشرط کو مؤخربھی ذکرکیاگیاہے)یعنی اگرشوہرنےرہائی کےبعد کسی کو بھی بتادیاتوشرط پائےجانےکی وجہ سےتین طلاق واقع ہوجائیں گی۔

 شرط مطلقا بتانےکی لگائی گئی  تھی( کہ آپ کسی کونہیں بتاؤگے)اورشرط ذکرکرتےوقت سرکاری ادارےکی طرف سےکوئی وضاحت بھی نہیں کی گئی،لہذابعدمیں کسی کوبھی بتانےسےطلاق واقع ہوجائےگی(چاہےوہ دیگرسیکورٹی ادارےہوں یا ان کےعلاوہ اس کےاپنےرشتہ دار وغیرہ )

شرعاتعلیق اورقسم میں دارومدارالفاظ پرہوتاہے،نہ کہ اغراض ومقاصدپر،لہذاموجودہ صورت میں چونکہ تعلیق کرتےوقت شوہرنے" کسی کونہیں بتاونگا" کےالفاظ مطلقاذکرکیےتھے ،لہذاشرعابھی اسی کااعتبارہوگا۔

 استفتاء میں مذکورہ تفصیل کےمطابق چونکہ شوہررہائی کےبعد لوگوں کو بتاچکاہے،لہذا اس کی بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہیں،جس کےبعدبغیرحلالہ شرعیہ کےدوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

حلالہ شرعیہ یہ ہے کہ  مطلقہ عورت کےتین حیض عدت گزرنےکےبعدکسی اورمردسےنکاح اورہمبستری ہو،اس کےبعد دوسراشوہراس کو طلاق دیدےیااس کاانتقال ہوجائےتویہ عورت پہلی صورت میں عدت طلاق اوردوسری صورت میں عدت وفات گزارنےکےبعداسی شوہرسےنئےمہراورگواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔

واضح رہےکہ حلالہ کےلیےطلاق کی شرط لگاکرنکاح کرناناجائزہے،البتہ بغیر شرط کےاگرنکاح ہواورشوہرکی نیت میں یہ ہوکہ ہمبستری کےبعدطلاق دےدونگاتواس میں شرعاکوئی حرج نہیں۔

حوالہ جات
"رد المحتار" 11 / 319:( وألفاظ الشرط )۔۔۔۔ وكذا لو حذف الفاء من الجواب في نحو : طلبية واسمية وبجامد وبما وقد وبلن وبالتنفيس كما لخصناه في شرح الملتقى۔
"رد المحتار" 11 / 320:
وقد قال العلامة قاسم إنه يحمل كلام كل عاقد وناذر وحالف على لغته ، هذا ما ظهر لي والله سبحانه وتعالى أعلم ۔
"الفتاوى الهندية" 9 / 213:
إذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته : إن دخلت الدار فأنت طالق۔
"حاشية رد المحتار " 4 / 93:
مطلب: النية للحالف لو بطلاق أو عتاق:قوله: (وقالوا النية للحالف الخ) قال في الخانية: رجل حلف رجلا فحلف ونوى غير ما يريد المستحلف إن بالطلاق والعتاق ونحوه يعتبر نية الحالف إذا لم ينو الحالف خلاف الظاهر ظالما كان الحالف أو مظلوما۔
قال اللہ تعالی فی سورۃ البقرۃ 229،223:الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان۔۔۔فان طلقہافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ۔
ھدایۃ " 2 /378:
وان کان الطلاق ثلاثافی الحرۃ الخ لاتحل لہ حتی تنکح زوجاغیرہ نکاحاصحیحاویدخل بہاثم یطلقہاأویموت عنہا۔
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي" 9 / 358:
في الحاوي الحصيري: والمعتبر في الايمان الالفاظ دون الاغراض.
"الأشباه والنظائر - حنفي - 1 / 72:
الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض فلو اغتاظ من إنسان فحلف أنه لا يشتري له شيئا بفلس فاشترى له شيئا بمائة درهم لم يحنث ولو حلف لا يبيعه بعشرة فباعه بأحد عشر أو بتسعة لم يحنث مع أن غرضه الزيادة لكن لا حنث بلا لفظ ولو حلف لا يشتريه بعشرة فاشتراه بأحد عشرة حنث وتمامه في تلخيص الجامع و شرحه للفارسي۔
"رد المحتار" 14 / 122:مبحث مهم في تحقيق قولهم : الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض ( قوله الأيمان مبنية على الألفاظ إلخ ) أي الألفاظ العرفية بقرينة ما قبله واحترز به عن القول ببنائها على عرف اللغة أو عرف القرآن ففي حلفه لا يركب دابة ولا يجلس على وتد ، لا يحنث بركوبه إنسانا وجلوسه على جبل وإن كان الأول في عرف اللغة دابة ، والثاني في القرآن وتدا كما سيأتي وقوله : لا على الأغراض أي المقاصد والنيات ، احترز به عن القول ببنائها على النية ۔
فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى ، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

18/ذیقعدہ     1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب