021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈاڑھی کاٹنے والے شخص کی اذان کا حکم
80434نماز کا بیاناذان و اقامت کے مسائل

سوال

مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک بندہ ڈاڑھی کاٹتا ہے، اور پھر بلاعذر قصداً ڈاڑھی والے کے ہوتے ہوئے بھی مسجد میں اذان دیتا ہے، روکنے کے باوجود نہیں مانتا۔ کیا اس اذان کا اعادہ واجب ہے؟ اور کیا مستحق آدمی کے ہوتے ہوئے بھی اس کی اذان جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایک مشت ڈاڑھی رکھنا شرعی حکم ہے، اس سے کم رکھنا یا بالکل نہ رکھنا تمام علماء کے نزدیک ناجائز اور حرام ہے، اس لیے ایک مشت سے کم ڈاڑھی رکھنے والا فاسق ہے، اور فاسق کا اذان دینا مکروہ ہے، لہٰذا اگر آپ کے محلے کی مسجد میں ڈاڑھی والا شخص اذان دینے کے لیے موجود ہے تو پھر غیر ڈاڑھی والے شخص کا اذان دینا مکروہ ہے، ایسے شخص کو زبردستی اذان دے کر مکروہ عمل کا سبب بننے سے باز رہنا چاہیے۔ تاہم غیر ڈاڑھی والے شخص کی دی ہوئی اذان کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔

حوالہ جات
صحيح مسلم (223/1):
"عن عائشة، قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ...»."
صحيح ابن حبان (23/4):
"عن أبي هريرة، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، قال: «إِنَّ فِطْرَةَ الْإِسْلَامِ الْغُسْلُ يَوْمَ الجمُعَةِ، وَالِاسْتِنَانُ، وَأَخْذُ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحَى، فَإِنَّ المجُوسَ تُعْفِي شَوَارِبَهَا، وَتحفِي لحاهَا، فَخَالِفُوهُمْ، خُذُوا شَوَارِبَكُمْ، وَاعْفُوا لحاكُمْ»."
الدر المختار (407/6):
"يحرم على الرجل قطع لحيته."
فتح القدير (369/4):
"(قوله: وهو) أي القدر المسنون في اللحية (القبضة) بضم القاف ... وأما الأخذ منها، وهي دون ذلك، كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال، فلم يبحه أحد."
الدر المختار (393/1):
"وجزم المصنف بعدم صحة أذان مجنون ومعتوه وصبي لا يعقل. قلت: وكافر وفاسق لعدم قبول قوله في الديانات."
رد المحتار (217/3):
"(قوله: قلت: وكافر وفاسق) ذكر الفاسق هنا غير مناسب؛ لأن صاحب البحر جعل العقل والإسلام شرط صحة، والعدالة والذكورة والطهارة شرط كمال، وقال: فأذان الفاسق والمرأة والجنب صحيح، ثم قال: وينبغي أن لا يصح أذان الفاسق بالنسبة إلى قبول خبره والاعتماد عليه، أي لأنه لا يقبل قوله في الأمور الدينية فلم يوجد الإعلام كما ذكره الزيلعي. وحاصله: أنه يصح أذان الفاسق وإن لم يحصل به الإعلام: أي الاعتماد على قبول قوله في دخول الوقت، بخلاف الكافر وغير العاقل فلا يصح أصلا، فتسوية الشارح بين الكافر والفاسق غير مناسبة."
الدر المختار (392/1):
"(ويكره أذان ... فاسق) ولو عالما."
الفتاوى الهندية (53/1):
"وينبغي أن يكون المؤذن رجلا عاقلا صالحا تقيا عالما بالسنة كذا في النهاية ... ويكره أذان الفاسق ولا يعاد، هكذا في الذخيرة."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

18/ذو القعدہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب