80480 | طلاق کے احکام | مدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم |
سوال
سائل نے اپنی بیوی کو ایک سال پہلے ایک طلاق دی پھر اس کے بعد سائل نےرجوع کیا ،سائل اور اس کی بیوی ہنسی خوشی ایک ساتھ رہنے لگے ،سال بعد سائل اور بیوی کا آپس میں جھگڑا ہوا توسائل نے پھر دوسری طلاق دی ،اس کے بعد سائل کی بیوی نے سائل کو کہا کہ اب تیسری طلاق بھی دے دو،سائل نےکہاوہ(پہلی دوطلاقیں) جلد بازی اور غصے میں دی ہیں، ٣ کبھی بھی نہیں دونگا۔
پھر اس کے بعد سائل کے گھر والوں اور سائل کی بیوی اور بیوی کےگھر والوں نے تحریرپر زبردستی طلاق لی، سائل نےمنہ سے طلاق نہیں کہا، تحریرپر جرگہ کی صورت میں دباوڈال کر سائن کروایا، آیا 3 طلاق ہوگئی یا نہیں۔
سائل کی دس ماہ کی بیٹی ہے سائل تحریر پر سائن کرنے سے انکار کر رہا تھا اس وقت سائل کا والد اور سائل کی بیوی کا بھائی اور سائل کی بیوی کا ماموں شدید غصے میں تھے، سائل نے سائن کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے کہا "اگر تم نے سائن نہیں کیا تمہارے ساتھ بہت برا سالوک کریں گے" سائل کو یہ لگا اگر میں نے سائن نہ کیا تو یہ میرا سر پھوڑ دیں گے یا میرے ہاتھ پاؤں توڑ دیں گے،معلوم یہ کرناہےکہ اس طرح طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟قرآن اور حدیث کی روشنی میں فیصلہ سنا ئیں۔آپ کی مہربانی ہوگی۔
سائل قسم کھا کر کہتاہےکہ اس وقت جرگہ کے سب لوگوں سے سائل کو خطرہ تھا اسی وجہ سے مجبوری میں سائن کیاہے اللہ کی قسم سائل نےطلاق کی نیت سے نہیں کیا بلکہ اپنی جان بچانے کیلئے کیاہے۔
طلاق نامہ بھی ان لوگوں کے پاس ہے، سائل کو انہوں نےکہا اب جاؤ دفع ہو جاؤ، تم سے بس سائن کروانا چاہتے تھےوہ کروالیا، اب جوکرسکتے ہوکرلو۔مہربانی فرماکر قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت کردیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں اگر واقعتا اس طرح دھمکی دی گئی اورشوہرکوواقعتاخطرہ تھاکہ طلاق نہ دینےکی صورت میں سرپھوڑدیں گےیاہاتھ پاؤں توڑدیں گےاوردھمکی دینےوالےاس طرح کرنےپرقادربھی تھے،ان کےمجبورکرنےپرشوہرنےطلاق نامہ پردستخظ کردیے،زبان سےطلاق کےالفاظ نہیں بولےاورنہ لکھتےوقت طلاق دینےکی نیت تھی،توایسی صورت میں صرف تحریرمیں طلاق دینےسےتیسری طلاق واقع نہیں ہوئی،لہذامیاں بیوی دوبارہ ساتھ رہ سکتےہیں(دوسری طلاق کےبعد رجوع ہوگیاہویاعدت کےبعددوبارہ نکاح کرلیاگیاہوتودوبارہ ساتھ رہ سکتےہیں)چونکہ پہلےسےدوطلا ق واقع ہوچکی ہیں،لہذااب صرف ایک طلاق کامزید اختیارہوگااگرایک طلاق کسی بھی طرح دیدی توبیوی پرطلاق مغلظہ واقع ہوجائےگی،جس کےبعد بغیرحلالہ کےدوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکےگا،اس لیےمیاں بیوی پرلازم ہےکہ مزید لڑائی جھگڑوں سےاحترازکریں۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 10 / 458:
وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق ، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية ۔
"الفتاوى الهندية " 8 / 365:
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان ۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
24/ذیقعدہ 1444ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |