021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حج میں روضہ مبارک پر حاضری کاحکم
80600حج کے احکام ومسائلحج کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میں متحدہ عرب امارات میں مقیم ہوں اور میری اہلیہ اپنے بھائی کے ساتھ حج کرنے گئی ہیں اور اب 1 مہینہ گزر چکا ہے اور اسے یو اے ای میں اپنے گھر واپس پہنچنے میں مزید 1 مہینہ لگے گا ،اس لیے میں اس سے کہتا ہوں کہ میں مکہ مکرمہ آؤں گا اور اسے آنے والے ہفتہ کو وہاں سے واپس لے جانا، لیکن اس نے مجھے بتایا کہ وہ آج تک روضہ رسول ﷺ پر نہیں گئی اور حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیا کہ اگر کوئی حج پر آئے اور روضہ رسول پر حاضر نہ ہو۔ اس نے پھر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ جفا کیا ہے، لہذا میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ بیان میرے مخصوص معاملے کے لئے درست ہوگا جہاں میرا اور بچوں کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے؟۔ آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم مجھے فوری جواب ارسال کریں تاکہ جواب ملنے کے بعد میں 14-جولائی-2023 کو اپنی بیوی کو لینے کا فیصلہ کر سکوں۔ جزاک اللہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مکہ مکرمہ کی حاضری اور حج کے ارکان ادا کرنے سے حج مکمل ہوجاتا ہے، حاجی ارکان حج سے فارغ ہونے کے بعد سیدھا گھر آجائے تو اس کاحج درست ہوجائے گا۔ زیارت روضہ رسول ﷺ ارکان حج میں سے نہیں ہے،البتہ زیارت روضہ اقدس کیلئے جانا قریب الی الوجوب ہے، قانونی مشکلات اور شرعی اعذار کی بنا پر اگر نہ جا سکے تو یہ وجوب ساقط ہے بہر حال اس سے حج متأثر نہیں ہوتا.

زیارت روضہ رسول ﷺ کیلئے مدینہ منورہ جانے کے بارے میں تین اقوال ہیں:

1۔ مندوب،       2۔قریب الوجوب         3۔ واجب،

حضرت مولانا  اشرف علی تھانوی  صاحب رحمہ اللہ نے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے،وہ فرماتے ہیں:

وفی ردالمحتار عن اللباب والفتح وشرح المختار انہا  قریبۃ من الوجوب لمن لہ سعۃ ، اس سے قول بالوجوب کے معنیٰ واضح ہو گئے یعنی ہے تو مندوب ،مگر اور مندوبات سے زیادہ مہتم بالشان ،جس کو قرب وجوب سے تعبیر کیا ہے، پس دونوں قول متطابق ہو گئے۔(امداد الفتاویٰ ۲:۱۶۹ مسائل منثورہ متعلقہ بالحج)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

من زار قبری وجبت لہ شفاعتی(سنن دار قطنی ج2ص278)

ترجمہ:جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

قال مَشَايِخُنَا رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى إنَّهَا أَفْضَلُ الْمَنْدُوبَاتِ وفي مَنَاسِكِ الْفَارِسِيِّ وَشَرْحِ الْمُخْتَارِ أنها قَرِيبَةٌ من الْوُجُوبِ لِمَنْ له سَعَةٌ وَالْحَجُّ إنْ كان فَرْضًا فَالْأَحْسَنُ أَنْ يَبْدَأَ بِهِ ثُمَّ يُثَنِّيَ بِالزِّيَارَةِ وَإِنْ كان نَفْلًا كان بِالْخِيَارِ فإذا نَوَى زِيَارَةَ الْقَبْرِ فَلْيَنْوِ معه زِيَارَةَ مَسْجِدِ رسول اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم

( ج1ص291)

ترجمہ: ہمارے مشائخ نے فرمایا: نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت افضل مستحب ہے۔مناسکِ فارسی اور شرح محتار میں ہے: جس میں ہمت ہو اس کے لیے وجوب کے قریب ہے۔ اگر حج فرض ہے تو پہلے حج کرے اوربعد میں زیارت اور اگر حج نفل ہے تو پھر اختیار ہے۔ہاں اگر زائر روضہ رسول کی زیارت کی نیت کرے تو اسے چاہیے کہ مسجد نبوی کی زیارت کی نیت بھی کر لے۔

حوالہ جات
قال الملا علی قاری: ان زیارۃ سید المرسلینﷺ باجماع المسلمین ای من غیر عبرۃ بما ذکرہ بعض المخالفین من اعظم القربات وافضل الطاعات وانجح المساعی لنیل الدرجات قریبۃ من درجۃ الواجبات بل قیل انہا من الواجبات کما بینتہ فی الدرۃ المضیۃ فی الزیارۃ المصطفویۃ لمن لہ سعۃ ای وسعۃ واستطاعۃ وترکہا غفلۃ عظیمۃ۔ (ارشاد الساری ۳۳۴ باب زیارت سید المرسلینﷺ)
قال العلامۃ ابن عابدین :(بل قیل واجبۃ) ذکرہ فی شرح اللباب وقال بینتہ فی الدرۃ المضیۃ فی الزیارۃ المصطفویۃ وذکرہ ایضا الخیر الرملی فی حاشیۃ المنح عن ابن حجر وقال وانتصرلہ نعم عبارۃ اللباب والفتح وشرح المختار انہا قریبۃ من الوجوب لمن لہ سعۃ الخ۔ (ردالمحتار ہامش الدرالمختار ۲:۲۷۹ قبیل مطلب فی المجاورۃ بالمدینۃ ومکۃ المکرمۃ)۔۔۔۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

23/ذی الحجہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب