021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ماضی کے کلام پر طلاق معلق کرنا
80666طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک  لڑکی سے میرے شوہر کے تعلقات تھے پھر میرے شوہرنے قسم کھائی اورکلمہ پڑھ لیا کہ میں اس لڑکی سے کوئی رابطہ نہیں رکھوں گا،پھرمیں نے کافی عرصہ بعد شوہرکے پاس اضافی موبائل دیکھا تو میں نے شوہرکو نیند سے جگایا اورکہا کہ مجھے یہ موبائل کھول کردکھائیں میں دیکھناچاہتی ہوں کہ اس میں وہی لڑکی تو نہیں ہے جس سے رابطہ نہ رکھنے کی تم نے قسم کھائی تھی کہ "قسم سے میں اس لڑکی سے رابطہ نہیں رکھوں گا"تو انھوں نے موبائل کھول کردیا تو اس میں انھوں نے اسی لڑکی سے بات چیت کی ہوئی تھی تو میں اللہ کے خوف سے رونے لگی کہ غیر عورت کے لیے تم  نےاللہ کی جھوٹی قسمیں کھائی ،وہ بھی گھبراگئے اورکچھ کچی نیند سےبھی اٹھے تھےتو بولنے لگے کہ اس ایک ہفتے کے علاوہ ایک سال سے میں نے اس لڑکی سے کوئی رابطہ کوئی تعلق نہیں رکھاہے ،نہ ہی میں اس سے ملاہوں اوربے اختیار غلطی سے ان کے منہ سے نکلا کہ" اگراس ایک سال میں میں نے اس سے کوئی رابطہ کیا ہوتو تمہیں مجھ پر طلاق ہوگی" یہ سارے الفاظ بے اختیارغلطی سے ان کے منہ سے نکل گئے تھے،نہ  ان کاکوئی ارادہ تھا،نہ نیت ،نہ اشارہ طلاق دینے کا اورنہ ہی ہمارا جھگڑاتھااورنہ ہی ہم مذاق کے موڑمیں تھے بس ایسے ہی اللہ کے خوف سے ہم یہ بات کررہے تھے،یہ بات تین سال پرانی ہے اس کا فتوی ہم نے نہیں لیا تھا۔  میں نےجو ان کا اس لڑکی سے رابطہ فون میں  دیکھاتھااس کا ڈیڑھ سال سے اوپر کا وقت آرہاہے،اس  ڈیڑھ سال کےدوران اگر انہوں نے کوئی اوررابطہ کیاہو تو اس کا مجھے پتہ نہیں ،اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہرکو عرصہ یاد نہیں آرہاہے کہ انھوں نے کتنا عرصہ رابطہ نہیں کیا،سال سے اوپر ہے یا سال سے کم ہے،انہیں یہ یاد نہیں ہے،اب اس کا کیاحکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے واقعی یہ الفاظ اپنے بیوی کوکہے ہوں "اگراس ایک سال میں میں نے اس سے کوئی رابطہ کیاہوتو تمہیں مجھ پر طلاق ہوگی" تو گو یہ الفاظ غلطی سے اس کے منہ سے نکلےہوں بہرصوت اگراس نے گزشتہ ایک سال کے دوران اس لڑکی سے بات کی ہو تو اس کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی بشرطیکہ بات کرنا اس کو اچھی طرح یادہو یا کم از کم اس کو اس کا غالب گمان ہو،ایک طلاق رجعی کے بعد اگر عدت نہ گزری ہو تو رجوع کرنے کا حق شوہر کے پاس ہے ،تاہم اگر شوہر نے عدت کے دوران رجوع نہ کیا  ہو تو عدت گزرنےپر تجدید نکاح کے بغیر یہ عورت شوہر کے لیے حلال نہیں ہوسکتی۔

اواگریقین یاغالب گمان نہ ہو بلکہ صرف شک ہو تو پھر طلاق نہیں ہوگی اس لیے کہ صرف شک سےکوئی چیز ثابت نہیں ہوتی ۔

حوالہ جات
وفی الشامیة:
"باب الصریح: صریحہ ما کم یستعمل الا فیہ۔۔۔۔۔۔و یدخل نحو طلاغ، و تلاغ و طلاک تلاک او "ط ل ق" او "طلاق باش" بلا فرق بین عالم و جاھل، و ان قال: تعمدتہ تخویفا، لم یصدق قضاء، الا إذا اشھد علیہ قبلہ، بہ یفتی قال فی البحر؛ و منہ الالفاظ المصحفة، و ھی خمسة فزاد علی ماھنا"تلاق".(کتاب الطلاق،مطلب فی الفاظ المصحفة،249/3، ط: سعید)
رد المحتار - (ج 9 / ص 227)
 وأفتوا بالوقوع في علي الطلاق وأنه تعليق يقع به الطلاق عند وقوع الشرط ؛ لأنه صار بمنزلة إن فعلت فأنت كذا ، ومثله الطلاق يلزمني لا أفعل كذا مع كونه غلطا ظاهرا لغة وشرعا لعدم وجود ركنه وعدم محلية الرجل للطلاق.
رد المحتار - (ج 11 / ص 22)
( قوله ولو قال وطلاقك علي لم يقع ) قال في الخانية : ولو قال طلاقك علي ذكر في الأصل على وجه الاستشهاد فقال : ألا ترى أنه لو قال لله علي طلاق امرأتي لا يلزمه شيء .
قلت : ومقتضاه أن علة عدم الوقوع في طلاقك علي أنه صيغة نذر كقوله علي حجة فكأنه نذر أن يطلقها النذر لا يكون إلا في عبادة مقصودة ، والطلاق أبغض الحلال إلى الله تعالى فليس عبادة فلذا لم يلزمه شيء.
رد المحتار - (ج 11 / ص 22)
نقل سيدي عبد الغني عن أدب القاضي للسرخسي : رجل قال لامرأته : طلاقك علي فرض ولازم أو قال طلاقك علي فالصحيح أنه يقع في الكل بخلاف العتق لأنه مما يجب فجعل إخبارا ، ونقل مثله عن مختصر المحيط .
( قوله وقال الخاصي المختار نعم ) عبارة فتاوى الخاصي قال لها : طلاقك علي واجب ، أو قال وطلاقك لازم لي يقع بلا نية عند أبي حنيفة ، وهو المختار ، وبه قال محمد بن مقاتل و عليه الفتوى ا هـ وأنت خبير بأن
لفظ الفتوى آكد ألفاظ التصحيح .
ونقل في الخانية عن الفقيه أبي جعفر أنه يقع في قوله واجب لتعارف الناس لا في قوله ثابت أو فرض أو لازم لعدم التعارف ، ومقتضاه الوقوع في قوله علي الطلاق لأنه المتعارف في زماننا كما علمت .
وعلل الخاصي الوقوع بقوله : لأن الطلاق لا يكون واجبا أو ثابتا بل حكمه ، وحكمه لا يجب ولا يثبت إلا بعد الوقوع .
فى الهندية:
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق۔(الفتاوى الهندية،كتاب الطلاق،الباب الرابع في الطلاق بالشرط،ج:1،ص:488)
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع"25/3:
"ثم الظرف نوعان ظرف زمان وظرف مكان..... وإن دخلت على الزمان فإن كان ماضيا يقع الطلاق في الحال نحو أن يقول أنت طالق في الأمس أو في العام الماضي لأن إنشاء الطلاق في الزمان الماضي لا يتصور فيجعل إخبارا أو تلغو الإضافة إلى الماضي ويبقى قوله أنت طالق فيقع في الحال ".
وفی الشامیة:
صریحہ مالم یستعمل الافیہ،أی غالباً کمایفید کلام البحر،وعرفہ فی التحریر بمایثبت حکمہ الشرعی بلانیۃ۔۔۔۔لأن رکن الطلاق اللفظ أومایقوم مقامہ مماذکر۔[فتاوی شامی،ج:3،ص:247،باب الصریح،ط:سعید]
وفی البدائع:
سمی ھذا النوع صریحا۔۔۔وھذہ الالفاظ ظاھرۃ المراد،لأنھالاتستعمل الافی الطلاقعن قیدالنکاح ،فلایحتاج فیھاالی النیۃ لوقوع الطلاق،اذاالنیۃ عملھا فی تعیین المبھم ولاابھام فیھا۔[بدائع الصنائع،2222،ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت]ا
و فی الہدایة:
قال: " والقاصد فی الیمین والمکرہ والناسی سواء " حتی تجب الکفارة لقولہ علیہ الصلاة والسلام ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النکاح والطلاق والیمین .(الہدایة فی شرح بدایة المبتدی 2/ 317،الناشر: دار احیاء التراث العربی - بیروت – لبنان)
فى الهندية:
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية۔(أيضاً،الباب السادس في الرجعة،ج:1،ص:533)
ومنھا شک ھل طلق أم لا لم یقع قال الحموي قال المصنف في فتواہ ولا اعتبار بالشک إلا أن یکون أکبر ظنہ علی خلافہ(الأشباہ: ۱۰۸)
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 148)
 الشك والاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض، إذ اليقين لا يزول بالشك.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

28/12/1444ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب