021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں وراثت کی تقسیم کاحکم
80709میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

ہمارے   الد صاحب   نے  1993 میں    اپنا ذاتی  مکان ہم   چھ بیٹوں کے نام  کردیاتھا ، ہم سب  نے رجسٹرار کے دفتر جا   کر دو گواہوں  کے سامنے   گفت نامہ   پر دستخط  کردئے ۔  اور  اپنی تینوں بیٹیوں  اور بیوی  ﴿یعنی  ہماری والدہ  صاحبہ ﴾    تیس ،تیس ہزار  روپے دئے ،اور  بیٹیوں سے کہا کہ   کہ  مکان  بیٹوں  کے نام  کردیا ہے  اور تم لوگوں کو نقد    پیسے دے رہا ہوں    تم لوگوں کا اس گھر میں کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔اور تم لوگ جب دل چاہے   گھر میں  آؤ ،جاؤ  کوئی   ممانعت نہیں ۔ والد صاحب کا 5 فروری 2000 میں  انتقال ہوا ، لیکن  ہماری والدہ حیات تھی  اس لئے ہم نے مکان  فروخت نہیں   کیا  اب  28 جون 2023 کو  والد ہ  کاانتقال ہوگیا ہے ، دوسال  پہلے بڑے بھائی  کا بھی  انتقال ہوچکا ہے ،

سوال  یہ  ہے  کہ جب والد صاحب  نے اپنی زندگی    ہم   چھ بیٹوں   کو گھر کا مالک  بناکر   مکمل قبضہ دیدیا تھا  ،ہماری  والدہ اور   بیٹیوں  کو نقد رقم   کی شکل   میں    دیدی تھی   تو اس مکان میں   اب وراثت جاری ہوگی   یا  نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

      زندگی میں  اپنی اولاد میں مال تقسیم   کرنا   شرعا ھبہ   ﴿گفٹ﴾  کہلاتا ہے  اس  کا مستحب طریقہ  یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں   سب کو   برابر   حصے دئے جائیں ﴿ دینداری ،احتیاج ،خدمت  گزاری جیسی ﴾ کسی  وجہ ترجیح  کے بغیر مال  ھبہ کرنے میں ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جائے ،میراث  کے  اصول کے مطابق   لڑکو  ں کو  دو،دو حصے اور  لڑکیوں  کو ایک ،ایک حصہ دینا  بھی جائز ہے ۔

دوسری  بات یہ ہے کہ   مکان  کا ھبہ مکمل  ہونے کے لئے ضروری  ہے  کہ  مکان کو  خالی  کرکے ورثاء کے حوالے کیاجائے ،اور  اگرمکان   قابل تقسیم ہے تو  تقسیم  کرکے  مالکانہ  تصرف کے ساتھ   قبضہ میں دیا  جائے ۔

صورت  مسئولہ  میں  چونکہ ھبہ کے بعد  مکان  خالی کرکے  بیٹوں  کو  قبضہ نہیں دیا گیا  ہے  بلکہ تاحیات  مرحوم  خود اسی مکان میں رہتے رہے  ہین ،اس لئے   یہ ہبہ  مکمل نہیں ہوا ، اور مکان بدستور آپ کے  والد  مرحوم  کی  ملک  میں باقی  ہے  ،لہذا مکان  کو  دیگر ترکہ  میں شامل کرکے   تمام ورثا ء میں شرعی اصول کے مطابق  تقسیم کیاجائے گا ۔البتہ   تینوں  لڑکیوں  کو  جو  تیس ،تیس  ہزارروپے دئے گئے تھے، ان کے  حق میں اگر چہ  ھبہ مکمل ہوچکاتھا  ،لیکن چونکہ یہ پیسے  ان  کوبطور حصہ میراث  دئےگئے تھے،  اس لئے  ان کو چاہئے  اتنی  رقم حصہ میراث سے وصول  نہ کریں  بلکہ  والد کے ترکے میں شامل رہنے دیں  ۔

 میراث  کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ  مرحوم نے بوقت  انتقال منقولہ غیر منقولہ جائداد ،  سونا   چاندی ،نقدی  اور دیگر چھوٹا   بڑا جو بھی سامان  اپنی ملک میں  چھوڑا  ہے سب مرحوم کاترکہ  ہے ،  اس میں سے اگر مرحوم کے ذمے کسی  کا کوئی قرض  باقی  ہو  کل مال سے  اس کو ادا  کیاجائے اس کے بعد   اگر  مرحوم نے کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز وصیت کی  ہو  ایک  تہائی مال کی  حد تک اس پر عمل کیاجائے ،اس کے بعد کل مال کو   مساوی 15 حصوں میں تقسیم کرکے  6لرکوں میں سے ہرایک کو  دو ،دو حصے  اور تینوں  لڑکیوں  میں سے ہرایک  کو  ایک  ،ایک  حصہ دیاجائے گا ۔

نوٹ ؛

آپ کے  بڑے  بھائی  جن  کا انتقال  ہوگیا  ہے ان  کواپنے والد کے ترکے  سے ملنے والا   حصہ ان کی  بیوی اور بچوں  میں  میراث کے اصول کے مطابق تقسیم کیاجائے  گا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها

حسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

۲۸ ذی الحجہ  ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب