021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک بیٹے کا اپنا حصہ میراث والدہ کے نام کرنے کاحکم
80707وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ہمارے  والد کا مکان  جس کے متعلق   سابقہ  سوال میں ذکرکیا تھا   کہ  والد  صاحب  نے  ہم چھ بھائیوں  کو گفٹ کیاتھا   تواور والدصاحب کا  انتقال  2000ء  میں ہوگیاتھا  ،والدہ  اس مکان رہائش پذیر ہونے کی    بناء پر ہم مکا ن فروخت   نہیں  کیا  ، پھر 28جون   2023 میں والدہ  کا انتقال ہوگیا ، اس بارے  میں    یہ  پوچھنا تھا   کہ ہمارے   بڑے بھائی جو ہمارے   ساتھ رہائش پذیر   تھے   والد صاحب   کے انتقال کے بعد    2002 میں انہوں نے   اپنا  ذاتی مکان   بنا یا اور اسی میں   شفٹ ہوگئے ،  اس کے بعد   پھر 2005 میں   والدصاحب کے  گھر جو  ان کا حصہ   تھا  اس کو والدہ کے نام کردیا ، اس کے ان کے حالات خراب ہوگئے ، ان کو اپنا گھر بیچنا پڑا    ان کرایہ کے مکان میں اگئے ،  پھر کچھ عرصہ  کے بعد   ان کو فالج  کا اٹیک ہوا ،کافی بیمار رہنے لگے ، 2019 میں   ان کا انتقال ہوگیا ، ان کی  اہلیہ  اور ایک بیٹا    بھی اس مکان  میں ساتھ رہتے ہیں ،اب  ان کی اہلیہ ہمارے   والد صاحب کے  گھر  سے اپنے شوہر کا حصہ  مانگ  رہی  ہے ۔

اب سوال یہ ہے   کہ  بھائی کی وصیت کے مطابق   ان کاحصہ  والدہ  کو پورا ملے  گا  یا ایک   تہائی حصہ ملے گا    ؟  کاغذات   ساتھ لگادیا  ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  آپ کےبڑے  بھائی نے والدہ  کے  حق میں جو تحریر  لکھی ہے  اس کو  ھبہ  قرار  نہیں  دے سکتے  کیونکہ ھبہ  مکمل  ہونےکے لئے  ضروری ہے کہ مال ھبہ  کرکے قبضہ میں  دے کر   مالکا نہ  تصرف  کی اجازت دی جائے جبکہ  مسئولہ  صورت  میں ایسا نہیں ہوا ، کیونکہ ھبہ  کے وقت مال خود  بھائی کے قبضہ  میں نہیں آیا  تھا ،اسی طرح  وصیت بھی نہیں قرار دے سکتے  کیونکہ وارث کے حق میں وصیت نافذ نہیں  ہوتی  ،لہذا  بھائی  کی طرف سے  منسلکہ تحریر  ناقا بل عمل ہے  اس لئے  آپ کے بڑے  بھائی  کو  اپنے والد  کی میراث میں سے  دیگر بھائیوں کے برابر پورا  ایک حصہ  ملے گا ،جو  ان کے  ورثاء ﴿ بیوی  بچوں اور والدہ ﴾ میں تقسیم ہوگا ۔یعنی آپ کی  والدہ بھی  آپ کے بھائی کے ورثاء  میں داخل  ہیں  ،لہذا  بھائی کے  مال  کا  چھٹا  حصہ والدہ  کو ملےگا  جو بعد  میں ان کے  پانچ بیٹے  اور تین بیٹیوں میں تقسیم ہوگا ۔  

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 514)
قال: "ولا تجوز لوارثه" لقوله عليه الصلاة والسلام: "إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث" ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه، ويعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية لأنه تمليك مضاف إلى ما بعد الموت، وحكمه يثبت بعد الموت. "والهبة من المريض للوارث في هذا نظير الوصية" لأنها وصية حكما حتى تنفذ من الثلث، وإقرار المريض للوارث على عكسه لأنه تصرف في الحال فيعتبر ذلك وقت الإقرار.
قال: "إلا أن تجيزها الورثة" ويروى هذا الاستثناء فيما رويناه، ولأن الامتناع لحقهم فتجوز بإجازتهم؛ ولو أجاز بعض ورد بعض تجوز على المجيز بقدر حصته لولايته عليه وبطل في حق الراد.

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۲۹ ذی الحجہ   ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب