021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح حلالہ کے بعدطلاق کاحکم
80710نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

عرض  یہ  ہے کہ  میں  نے ایک مطلقہ  لڑکی سے  حلالہ  کے طور پر  نکاح کیا  تھا ، میرے علم میں نہیں  تھا   کہ  وقت مقرر کرکے اس طرح  حلالہ  کی نیت سے نکاح کرنا حرام ہے ،بعد میں پتہ  چلنے  پر اللہ  تعالی سے معافی مانگی،جس  لڑکی  سے حلالہ  کی نیت سے نکاح کیا   وہ ایک ماہ کا  حاملہ تھی ، ،   نکاح  کے وقت اس بات  کا نہ لڑکی کو علم تھا    نہ مجھے ،نکاح کے بعد   ہمبستری  کررہا تھا    اس کے گھر میں لڑا ئی شروع ہوگئی اس لئے   پوری طرح ہمبستری  نہ کرسکا ،یعنی  دخول  تو  کیا  پوری طرح فارغ  نہیں  ہوا ، کمرہ  سے باہر آگیا   اور طلاق  نامے پر سائن کردیا ، منہ سے  ایک بار طلاق بھی دیدی   اور  طلاق  نامہ پر جہاں سائن  کیا   وہاں دو طلاق لکھا ہوا  تھا  ،اب سوال یہ ہے کہ  اس صورت حال  میں  حلالہ کے بعد   جو طلاق دی گئی وہ واقع ہوئی ہے  یانہیں؟  لڑکی مجھ سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی  ہے ، اس کے  لئے مجھے کیاکرنا چاہئے؟طلاق نامہ ساتھ منسلک  ہے ۔

تنقیح ؛

ایک ماہ کے  حمل کا کیا مطلب  ہے ؟ کیاعدت   کے اندر نکاح  ہوا تھا؟

    جواب ؛  سابق شوہر کے طلاق کے بعد عدت گذر گئی تھی ، تین  ماہواریا  ں  مکمل ہوچکی  تھیں ،عدت  گذرنے  کے بعد          سابق شوہر نے  جماع کیا جس سے حمل ٹھہر گیا ، لیکن حمل کا علم  تب ہوا  جب حلالہ کی نیت سے   نکاح  کیاگیا  اس کے ہفتہ دو ہفتہ   بعد    معلوم ہوا   کہ خاتون کو حمل  ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح  ہوکہ تین طلاق کے بعد میاں  بیوی  ایک دوسرے  پرحرام  ہوجاتے  ہیں ،ان کا آپس  میں میاں بیوی  کی حیثیت  سے زندگی گذارنا  حرام  ہے ،اگر کوئی  تین طلاق کے بعدہمبستری کرے تو وہ زناکاری  ،بدکاری کے حکم  میں ہونے کی وجہ سے حرام   ہے ، اور حلالہ  شرعیہ کے بغیر آپس  میں دوبارہ  نکاح  بھی نہیں  ہوسکتا ،﴿ حلالہ  شرعیہ  کی صور ت  یہ ہے کہ  عورت پہلے شوہر کی عدت ختم ہونے کے بعدعورت کسی اور مرد سے گواہوں کی موجودگی میں  نکاح  صحیح کرلے، دوسرے شوہرنکاح  کے بعد  ہمبستری  کرے، اس کے بعد  کسی وجہ سے طلاق  دے  یا شوہر کا انتقال  ہوجائے ،پھر طلاق یا وفات کی عدت گذر جائے ، دوسرے  شوہر کی عدت گذرنے  کے  بعد عورت پہلے شوہر کے ساتھ  دوبارہ  نکاح کرنا چاہے  تو شرعا  اس کی اجازت ہے ﴾

لیکن  حلالہ  کامروج طریقہ  کہ  مشروط  طورپر کسی  مرد سے نکاح  کروانا  پھر ہمبستری کے  فورابعد  اس سے طلاق لے  لینا  اس عمل پرحدیث میں  لعنت  آئی  ہے ،کیونکہ  شریعت  کے حکم  کے مطابق نکاح   وقتی  طور پر نہیں  ،بلکہ تاحیات ہونالازم  ہے  کہ  جب تک  زندگی  دونوں ایک دوسرے  کے ساتھ میاں بیوی  کی  حیثیت  سے زندگی  گذاریں گے،اس لئے مشروط طور پر نکاح  کرنا گناہ  ہے۔

لہذاصورت  مسئولہ میں پہلے شوہر کی عدت  ختم ہونے کے بعد  حلالہ کی نیت سے جو نکاح  ہوا ہے  یہ گناہ کا  کام ہوا ہے ، مرد وعورت دونوں پر اور دونوں کے خاندان کے افراد جو  اس عمل میں کسی  درجہ  میں  شریک  رہے ہیں ،  توبہ واستغفار لازم ہے ، تاہم  گواہوں کی موجودگی میں  نکاح کی دیگر شرائط پوری کرکے  اگر نکاح  ہوا  ہے تو  نکاح منعقد ہوگیا ، اور  اس کے بعد زبانی  طور  پر دی گئی ایک طلاق اوراس کے بعد طلاق نامہ﴿جس میں  دو طلاق بائن  لکھے ہوئے ہیں﴾پر  برضاء ورغبت  دستخط کرنے سے مزید دو طلاقیں  واقع ہوئیں ،اس طرح   یہ عورت  تین   طلاق مغلظہ کے ساتھ آپ   پرحرام ہوچکی ہے ، آپ کے لئے اس خاتوں کے ساتھ دوبارہ  نکاح کرنے کی کوئی صورت نہیں ۔

حوالہ جات
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ } [البقرة: 230]                                                                                             
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 248)
عن عبد الله بن مسعود قال : لعن رسول الله المحلل والمحلل له . رواه الدارمي
    الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 48)
(و) صح نكاح (حبلى من زنى لا) حبلى (من غيره) أي الزنى لثبوت نسبه ولو من حربي أو سيدها
قوله: حبلى من غير إلخ) شمل الحبلى من نكاح صحيح أو فاسد أو وطء شبهة أو ملك يمين، وما لو كان الحبل من مسلم أو ذمي أو حربي (قوله:؛ لثبوت نسبه) فهي في العدة ونكاح المعتدة لا يصح ط      
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 134)
(ويثبت النسب) احتياطا بلا دعوة (وتعتبر مدته) وهي ستة أشهر (من الوطء، فإن كانت منه إلى الوضع أقل مدة الحمل) يعني ستة أشهر فأكثر (يثبت) النسب (وإلا) بأن ولدته لأقل من ستة أشهر (لا) يثبت، وهذا قول محمد وبه يفتى، وقالا: ابتداء المدة من وقت العقد كالصحيح ورجحه في النهر بأنه أحوط۔

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۳۰ ذی الحجہ  ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب