021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نبی کریمﷺکے زمانے میں قرآن کریم کی منتقلی(نبی کریم ﷺ کے زمانے میں قرآن کریم کی کتابت وحفاظت کس طرح ہوئی؟)
80683علم کا بیانعلم کے متفرق مسائل کابیان

سوال

دین کا علم بمعنی قرآن ،نبی کریمﷺ کے زمانے میں کس طرح منتقل ہوا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآن کریم چونکہ ایک ہی دفعہ پورا نازل نہیں ہوا،بلکہ ضرورت اور حالات کی مناسبت سے مختلف آیات نازل کی جاتی رہی،اس لئے عہد رسالت میں قرآن کریم مکمل ایک کتابی شکل میں محفوظ کرنا ممکن نہ تھا۔چنانچہ ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے زیادہ زور زبانی حفظ پر دیا گیا۔شروع میں جب آپﷺپر وحی نازل ہوتی تو آپﷺاس کے الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے،اسی پر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سورت القیامہ کی آیات میں آپﷺ کو ہدایت فرمائی کہ:

(لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ* إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ)

ترجمہ:(اے پیغمبر)تم اس قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو ہلایا نہ کرو*یقین رکھو کہ اس کو یاد کرانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے۔

مزید احتیاط کے طور پر آپﷺہر سال رمضان کے مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن سنایا کرتے تھے،اور جس سال آپﷺکی وفات ہوئی اس سال آپﷺنے دو مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ دور کیا۔(فتح لباری)

پھر آپﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو قرآن کریم کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے،بلکہ انہیں اس کے ساتھ ساتھ الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔حضرت عبادۃ ابن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب کوئی شخص ہجرت کرکےمکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آتا تو آپﷺاُسے ہم انصاریوں میں سے کسی کے حوالے فرمادیتے،تاکہ وہ اسے قرآن سکھائےاور مسجد نبوی میں قرآن سیکھنے سکھانے والوں کی آوازوں کا اتنا شور ہونے لگا کہ رسول اللہﷺکو یہ تاکید فرمانا پڑی کہ اپنی آوازیں پست کرو،تاکہ کوئی مغالطہ پیش نہ آئے۔(مناہل العرفان 1/234)

قرآن کریم کو حفظ کرانے کے علاوہ آپﷺ نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا،حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپﷺکےلئے وحی کی کتابت کرتا تھا،جب آپﷺپر وحی نازل ہوتی تو آپﷺکو سخت گرمی لگتی اور آپﷺ کے جسم اطہر پر پسینہ کے قطرےموتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتےتھے،پھر جب آپﷺسے یہ کیفیت ختم ہوجاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ہڈی یا(کسی اور چیزکا)ٹکڑالے کر خدمت میں حاضر ہوتا،آپ لکھواتے رہتے اور میں لکھتا جاتا،یہاں تک کہ جب میں لکھ کر فارغ ہوتا تو قرآن کریم کو نقل کرنےکے بوجھ سے مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہےاور میں کبھی چل نہیں سکوں گا،جب میں فارغ ہوتا تو آپﷺفرماتے "پڑھو"میں پڑھ کر سناتا،اگر اس میں کوئی کمی بیشی ہوتی تو آپﷺ اس کی اصلاح فرمادیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے۔(مجمع الزوائد)

اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کا معمول تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپﷺ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرمادیتے تھے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے(فتح الباری)۔عہد رسالت میں قرآن کریم کا ایک نسخہ تو وہ تھا جو آپﷺنے اپنی نگرانی میں لکھوایاتھا،اگرچہ وہ مرتب کتاب کی شکل میں نہیں تھا،بلکہ متفرق پارچوں کی شکل میں تھا،اس کے ساتھ ہی بعض صحابہ کرام بھی اپنی یادداشت کے لئے آیاتِ قرآنی اپنے پاس لکھ لیتے تھےاور یہ سلسلہ اسلام کے ابتدائی عہد سے جاری تھا،چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے ہی ان کی بہن اور بہنوئی کےایک صحیفہ میں آیاتِ قرآنی لکھی ہوئی تھیں(سیرت ابن ہشام)۔

خلاصہ کلام یہ کہ نبی کریمﷺکے زمانے میں ہی قرآن کریم کوزبانی یاد کرانے کے ساتھ ساتھ اسے لکھنے کا بھی خاص اہتمام  کیاجاتا رہا،اگرچہ مکمل قرآن ایک کتابی شکل میں موجود نہ تھا ،البتہ مخلتف پتھروں کی سلوں،چمڑے کے پارچوں،کھجور کی شاخوں،بانس کے ٹکڑوں،درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں وغیرہ پر قرآنی آیات لکھی جاتی تھیں۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (6/ 187)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ جَمَعَ القُرْآنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ " تَابَعَهُ الفَضْلُ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ۔

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

30/ذولحجہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب