021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دورانِ نماز والدین کی پکار پر نماز چھوڑ کر جانے والی روایت کی حقیقت
80777حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

دورانِ نماز والدین کی پکار پر نماز چھوڑ کر جانے والی روایت کی کیا حقیقت ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکورہ روایت کو أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي نے شعب الإيمان میں ذکر کیا ہے، روایت کے الفاظ یہ ہیں:

شعب الإيمان لأبي بكر أحمد بن الحسين البيهقي (٣٨٤-٤٥٨هـ) (195/6):

أخبرنا أبو الحسين بن بشران، أنا أبو جعفر الرزاز، نا يحيى بن جعفر، أنا زيد بن الحباب، نا ياسين بن معاذ، نا عبد الله بن مرثد، عن طلق بن علي قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلّم - يقول: «‌لو ‌أدركت ‌والدي أو أحدهما وأنا في صلاة العشاء وقد قرأت فيها بفاتحة الكتاب، تنادي: يا محمد! لأجبتها: لبيك».

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر مَیں نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو پایا ہوتا، اور مَیں عشاء کی نماز میں مشغول رہتے ہوئے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کر چکا ہوتا، اس دوران پکارا جاتا کہ اے محمد! تو مَیں نماز توڑ کر لبیک کہتا ہوا حاضر ہو جاتا۔

اس حدیث کو محدثین رحمۃ اللہ علیہم نے یاسین بن معاذ کی وجہ سے موضوع قرار دیا ہے؛ کیونکہ یہ راوی صرف موضوعات ہی کو بیان کرنے سے معروف ہے، چنانچہ خود امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

تاہم فقہاء رحمۃ اللہ علیہم نے اس بارے میں یہ حکم بیان کیا ہے کہ اگر نماز کی حالت میں والدین پکاریں اور نمازی فرض نماز ادا کر رہا ہو، تو نماز نہیں توڑنی چاہیے۔ لیکن اگر نمازی نفل نماز پڑھ رہا ہو اور والدین کو نماز میں مشغول رہنے کا علم ہو، تو ایسی صورت میں نماز نہ توڑنا بہتر ہے، اور اگر والدین کو نماز میں مشغول رہنے کا علم نہ ہو، تو ان کی پکار کا جواب دینے کے لیے نماز توڑ دینی چاہیے، پھر بعد میں اس نماز کو لوٹانا واجب ہوگا۔ البتہ اگر والدین جان بچانے کے لیے یا کسی کو مصیبت سے نکالنے کے لیے بلا رہے ہوں، تو ایسی صورت میں ہر حال میں (چاہے فرض نماز ہو یا نفل) اپنی نماز توڑ کر ان کی مدد کرنا واجب ہے۔

حوالہ جات
اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة لعبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (ت:٩١١هـ) (250/2):
"موضوع: آفته ياسين. (قلت): أخرجه البيهقي، والله أعلم."
تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لنور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (ت:٩٦٣هـ) (296/2):
"[حديث]: «‌لو ‌أدركت ‌والدي أو أحدهما وأنا في الصلاة وقد قرأت الفاتحة، ينادي: يا محمد! لأجبته». (ابن الجوزي) من حديث طلق بن علي، وفيه يس بن معاذ، (تعقب) بأن الحديث أخرجه البيهقي في الشعب، وقال: يس ضعيف. (قلت): وكذلك أشار الذهبي في تلخيص الموضوعات إلى ضعفه من جهة يس، ثم استدرك فقال: ولكن في سنده هناد النسفي، والله أعلم."
تذكرة الموضوعات لمحمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (ت:٩٨٦هـ) (ص:202):
«لو أدركت والدي أو أحدهما وأنا في الصلاة صلاة العشا وقد قرأت فيها فاتحة الكتاب، ينادي: يا محمد! لأجبته: لبيك» موضوع. قلت: أخرجه البيهقي. وفي الوجيز: هو حديث طلق عن علي - رضي الله عنه -، وفيه يس بن معاذ يروي الموضوعات. قلت: قال البيهقي: ضعيف."
الدر المختار (654/1):
"ويجب [قطع الصلاة] لأغاثة ملهوف وغريق وحريق، لا لنداء أحد أبويه بلا استغاثة، إلا في النفل، فإن علم أنه يصلي، لا بأس أن لا يجيبه، وإن لم يعلم أجابه."
رد المحتار (70/5):
"( قوله: لا لنداء أحد أبويه إلخ) المراد بهما الأصول وإن علوا ، وظاهر سياقه أنه نفي لوجوب الإجابة فيصدق مع بقاء الندب والجواز. قلت: لكن ظاهر الفتح أنه نفي للجواز. وبه صرح في الإمداد بقوله: أي لا قطعها بنداء أحد أبويه من غير استغاثة وطلب إعانة؛ لأن قطعها لا يجوز إلا لضرورة. وقال الطحاوي: هذا في الفرض، وإن كان في نافلة إن علم أحد أبويه أنه في الصلاة وناداه، لا بأس أن لا يجيبه، وإن لم يعلم يجيبه.
(قوله: إلا في النفل) أي فيجيبه وجوبا وإن لم يستغث؛ لأنه ليم عابد بني إسرائيل على تركه الإجابة. وقال - صلى الله عليه وسلم - ما معناه. لو كان فقيها لأجاب أمه، وهذا إن لم يعلم أنه يصلي. فإن علم لا تجب الإجابة، لكنها أولى، كما يستفاد من قوله: لا بأس إلخ."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

05/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب