021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وکیل بالشراء کو قبضہ کے بعد چیز بیچنے کا حکم
80828خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

محمد نوید نے مسمی محمد ثاقب کو آئس کریم کے لیے ایک اسٹور خریدنے کا وکیل بنایا، ثاقب نے کسی شخص سے وہ کے لیے  اسٹور خریدا، جس کی پیمنٹ نوید نے ادا کی، اس کے بعد محمد نوید نے اس پر قبضہ کیا اور قبضہ کرنے کے بعد ادھار پرزیادہ قیمت پر گیارہ لاکھ پچاس ہزار روپیہ کا ثاقب کو بیچ دیا،کیا یہ صورت جائز ہے؟ ہمارے علاقے میں لوگ اس کو سود سمجھتے ہیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں نوید کا ثاقب کو اسٹور خریدنے کا وکیل بنانا اور پھر اس پر قبضہ کرنے کے بعد ثاقب کو ادھار پر گیارہ لاکھ پچاس ہزار روپیہ میں فروخت کرنا جائز ہے، اس کو سود نہیں کہا جائے گا، کیونکہ کسی چیز کو ادھار زیادہ قیمت پر بیچنا شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ خریدفروخت کی مجلس میں خریدی جانے والی چیز کی قیمت، ادائیگی کا وقت اور اس کی قسطیں وغیرہ طے کر لی جائیں۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (13/ 7) دار المعرفة – بيروت:
وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 158) دار الكتب العلمية،بيروت:
 وقد روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيعين في بيع» وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول........... فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد.
المعايير الشرعية: (ص:95):
2/2/3 الغرض من اشتراط قبض السلعة هو تحمل المؤسسة تبعة هلاكها، وذلك يعني أن تخرج السلعة من ذمة البائع وتدخل في ذمة المؤسسة، وتجب أن تتضح نقطة الفصل التي ينتقل فيها ضمان السلعة من المؤسسة إلى العميل المشتري وذلك من خلال مراحل انتقال السلعة من طرف لآخر.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

7/ محرم الحرام 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے