021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کئی سال کے بعد شفعہ کا دعوی کرنا
80813شفعہ کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ہم نے مظفرنامی بندے سے وہ جگہ خریدی جس میں ہم تقریباً 55سالوں سے رہ رہے تھے اورہم نے یہ مذکورہ زمین 6سال پہلے خریدی تھی،اب 6سال کے بعد مظفرکا چچامتقیم (جس کی زمین اس زمین کے ساتھ متصل ہے)نے شفعہ کا دعوی کیاہے،حالانکہ  اس وقت جاکرہم نےان سے پوچھاتھاکہ یہ زمین آپ کو تو نہیں چاہیے؟ تو انہوں نے گھریلوں مشاورت میں اپنے بھائیوں سے کہا تھا کہ مجھے اس زمین کی کوئی ضرورت نہیں،ہمارایہ سودا اتناعام ہوگیاتھاکہ گاؤں کےہربچے کو اس کے بارے میں علم تھا لیکن چھ سال بعد متقیم صاحب قسم کےلیے تیارہے کہ مجھے اس سودے کے بارے میں علم نہ تھا، حالانکہ دوسال پہلے متقیم کی میرے والدکےساتھ بحث ہوئی تو متقیم نے مجمع کے سامنے یہ کہا تھا کہ"یہ زمین جو آپ نے خریدی ہے اس کا میں آپ سے دو ارب قیمت لوں گا" ان کی یہ بات بھی اس کی دلیل ہے کہ ان کو علم تھامگر اب کہتاہے کہ مجھے ابھی تک علم نہیں تھاجبکہ اس سودے سے پورا گاؤں واقف تھااورہے کہ ہم نے یہ کیاہے اورمتقیم سےاس وقت پوچھا تھا، لیکن متقیم  اب اس سے انکاری ہے،یہ بات کرتے وقت وہاں  اگرچہ کوئی اورنہ تھالیکن علم اس سودے کے بارے میں سب کو تھا اورہے، مفتی صاحب علاقے کے سب لوگ جانتے ہیں کہ متقیم ایک وعدہ خلاف بندہ ہے وہ کسی بھی بات  پرفوراً قسم اٹھا لیتا ہے،مفتی صاحب اس زمین پر  ہم نے پچاس سے زیادہ سال گزارے ہیں اورپھر اسے خریدا ہے اورخریدتےوقت  اس کو مطلع بھی کیاتھا توان سب کے باوجود کیا پھربھی متقیم کادعوی شفعہ درست ہوگا؟  کیا اتنی شہرت کے باوجود متقیم کا یہ خلافِ ظاہر دعوی شفعہ قابل سماعت ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرواقعة مذکورہ سودے کو اس قدر شہرت حاصل تھی اورگاؤں میں رہنے کے باوجود ،اطلاع ملنےکےباجودمتقیم صاحب لاعلمی کا اظہارکررہے ہیں اورچھ سال بعد اٹھ کردعوی کررہے ہیں توان کا یہ دعوی خلاف ظاہر ہے، تاہم اگران کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ ان کو علم نہیں تھا تب بھی جب تک دو معتبرمرد یا  ایک معتبرمرد اور دو معتبر عورتوں کی گواہوں سے وہ یہ ثابت نہ کردے کہ علم ہوتے ہی میں نے طلبِ مواثبہ اورطلبِ اشہاد کیا تھا تو اس وقت تک اس کا یہ دعوی  شفعہ معتبرنہیں ہوگا، اگراس پروہ گواہ پیس نہ کرسکے اورمشتری سے قسم لینے کا مطالبہ کرے اورمشتری اپنے علم کے مطابق اس بات پر قسم اٹھالے کہ انہوں نے علم کے باوجودطلبِ مواثبہ اورطلبِ اشہاد نہیں کیاتھا توبھی اس مدعی کا مذکورہ  دعوی شرعاً معتبرنہیں ہو گا۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (ج 21 / ص 346)
ولو قال علمت أمس وطلبت أو كان البيع أمس وطلبتها في ذلك الوقت لم يصدق إلا ببينة . وهكذا ذكر الخصاف في أدب القاضي حكي عن الشيخ عبد الواحد الشيباني رضي الله تعالى عنه أنه قال إذا قال الشفيع علمت بالشراء وطلبت طلب المواثبة لا يقبل بلا بينة منه لكن إذا قال بعد ذلك علمت منذ كذا وطلبت لا يصدق على الطلب.
الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 553)
لو أنكر المشتري طلب المواثبة) فإنه يحلف على العلم (وإن أنكر) المشتري (طلب الاشهاد عند لقائه حلف) المشتري (على البتات) لانه يحيط به علما دون الاول، حاوي الزاهدي.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني - (ج 14 / ص 401)
إذا اتفق الشفيع والمشتري أن الشفيع علم بالشراء منذ أيام، ثم اختلفا بعد ذلك في الطلب فقال الشفيع طلبت منذ علمت، وقال المشتري: ما طلبت، فالقول قول المشتري، وعلى الشفيع البينة.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني - (ج 14 / ص 402)
في «فتاوى أبي الليث»: المشتري إذا أنكر طلب الشفعة، فالقول قوله مع يمينه، وبعد ذلك ينظر: إن أنكر طلبه عند سماع البيع يحلف على العلم بالله ما يعلم أن الشفيع حين سمع طلب الشفعة؛ لأنه لا يحيط علمه به، وإن أنكر طلبه عند العامة يحلف على الثبات؛ لأنه لا يحيط علمه به.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني - (ج 14 / ص 402)
إذا قال  الشفيع: كنت طلبت الشفعة أمس حين علمت بالبيع، وأنكر المشتري ذلك طلب بالشفيع يمين المشتري ذكر «الهاروني» و «أدب القاضي» للخصاف: أنه يحلف المشتري ما يعلم أنه طلب شفعة ولم يذكر فيه خلافا.
تكملة حاشية رد المحتار - (ج 1 / ص 462)
فلو أخبر الشفيع المشتري بنفسه وجب الطلب إجماعا، حتى إذا أخره سقط طلبه.
المحيط البرهاني لمحمود النجاري - (ج 7 / ص 545)
ومما يتعلق بمسائل الأخبار، إذا أخبر الشفيع بالشراء، فإن كان المخبر هو المشتري ثبت الشراء بخبره، سواء كان عدلا أو لم يكن، رواه الحسن عن أبي حنيفة، حتى لو سكت بعد إخبار المشتري ولم يطلب الشفعة بطلت شفعته؛ لأنه خصم في هذا والعدالة غير معتبرة في الخصومة، وإن كان المخبر غيره.ففي رواية محمد عن أبي حنيفة: لا يثبت الشراء حتى يخبره بذلك رجلان، أو رجل وامرأتان، وفي رواية الحسن عنه: لا يثبت الشراء حتى يخبره بذلك رجلان عدلان، أو رجل وامرأتان، وعلى قول أبي يوسف ومحمد رحمهما الله: إذا أخبره واحد يثبت الشراء بخبره حرا كان المخبر أو عبدا أو صبيا أو امرأة.إذا كان ذلك الخبر حقا، وذكر الطحاوي في كتاب الوكالة: أن المخبر إذا كان رسولا يثبت الشراء بخبره كيف ما كان الخبر، ولكن بعد أن بلغ الرسالة، وإن لم يكن المخبر رسولا، وإنما أخبر من تلقاء نفسه، فإن كان المخبر رجلين عدلين أو غير عدلين أو كان رجلا واحدا عدلا، فإنه يثبت الشراء سواء صدقه الشفيع في ذلك أو كذبه.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (ج 11 / ص 44)
وإنما الإشهاد للإظهار عند الخصومة على تقدير الإنكار؛ لأن من الجائز أن المشتري لا يصدق الشفيع في الطلب أو لا يصدق في الفور ويكون القول قوله، فيحتاج إلى الإظهار بالبينة عند القاضي على تقدير عدم التصديق؛ لأنه شرط صحة الطلب.
رد المحتار - (ج 25 / ص 403)
هذا إذا لم ينكر المشتري طلب الشفيع الشفعة ، فإن أنكر فالقول له بيمينه ابن كمال.
رد المحتار - (ج 25 / ص 477)
لو أنكر المشتري طلب المواثبة ) فإنه يحلف على العلم ( وإن أنكر ) المشتري ( طلب الإشهاد عند لقائه حلف ) المشتري ( على البتات ) لأنه يحيط به علما دون الأول حاوي الزاهدي.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

07/ محرم 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے