021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موھوبہ زمین اوراس کے متصل مبیعہ زمین میں شفعہ کے دعوی کاحکم
80815شفعہ کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک شخص متقیم کی زمین کے متصل مظفر نامی شخص کی زمین تھی وہ زمین مظفرنے میری دادی کو ہبہ کی تھی اوراب بھی مظفر اوراس کے ماں باپ یہی کہتے ہیں کہ یہ پلاٹ ہم نے ہبہ کیا تھا ،بعد میں ہم نے اس موہوبہ پلاٹ کے متصل زمین مظفرسے قیمتاًخریدلی اورقیمت بھی ادا کردی ،تاہم اس ہبہ پر بائع اورمشتری کے علاوہ دیگرگواہ نہیں ہیں،اب متقیم اس پر کئی سال کے بعد شفعہ کا دعوی کرتاہے ۔

تواب پوچھنایہ ہے کہ

١۔ کیا مذکورہ موھوبہ پلاٹ (جس پربائع اورمشتری کے علاوہ کوئی اورگواہ نہیں ہے)اوراس کے متصل قیمتاً خریدگئی زمین پر متقیم کو حقِ شفعہ حاصل ہوگا؟

۲۔ یہ ہبہ شدہ پلاٹ اورباقی خریدی گئی زمین اگر دوبارہ مظفرکو ہبہ کردی جائیں کو کیا متقیم کو اس پر حق شفعہ حاصل ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔ اگرواقعةً یہ زمین مظفرنے آپ کی دادی کو ہبہ کی تھی تو اس میں عقد مالی نہ ہونے کی وجہ سے اوراسی طرح اس کے بعد متصل زمین کی فروخت میں اتصال نہ  ہونے کی وجہ سےمتقیم کوحق ِشفعہ حاصل نہیں  ہوگا،تاہم اگرمذکورہ زمین کا ہبہ

 مشہورنہ ہو،اس پر گواہ  نہ  ہو اورمقتیم اس کا انکارکرتاہواورشراء کا مدعی ہوتو پھراس کے حق شفعہ کے بطلان کےلیے اس ہبہ کو پہلے گواہوں سے ثابت کرنا ہوگا،تاہم اگرہبہ ثابت نہ بھی کیاجاسکے تو تب بھی جب تک دو معتبرمرد یا  ایک معتبر مرد اور دو معتبر عورتوں کی گواہوں سے متقیم یہ ثابت نہ کردے کہ شراء کاعلم ہوتے ہی میں نے طلبِ مواثبہ اورطلبِ اشہاد کیا تھا تو اس وقت تک اس کا یہ دعوی  شفعہ معتبرنہیں ہوگا، اگروہ اس پر گواہ پیش نہ کرسکے اورمشتری سے قسم لینے کا مطالبہ کرے اورمشتری اپنے علم کے مطابق اس بات پر قسم اٹھالے کہ انہوں نے علم کے باوجودطلبِ مواثبہ اورطلبِ اشہاد نہیں کیاتھا توبھی اس مدعی کا مذکورہ  دعوی شرعاً معتبرنہیں ہو گا،نیز شفعہ کے ثبوت کےلیے عقد شراء کا فاسد نہ ہونا بھی ضروری ہوگا،جیسےکہ سابقہ جواب میں لکھا جاچکا ہے۔

۲۔نہیں، ہبہ میں شفعہ نہیں ہوتا۔

حوالہ جات
وفی المبسوط لشمس الدين السرخسي - (ج 7 / ص 213)
لا شفعة للشفيع في الهبة..... ولا شفعة في البيع الفاسد.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (ج 21 / ص 408)
قال رحمه الله ( وإن باعها إلا ذراعا في جانب الشفيع فلا شفعة له ) يعني إذا باع الدار إلا مقدار ذراع في طول الحد الذي يلي الشفيع فلا شفعة له ؛ لأن الاستحقاق بالجوار ولم يوجد الاتصال بالمبيع وكذا لو وهب هذا القدر للمشتري لعدم الاتصال .
الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 547) (وكذا) لا شفعة(لو وهب هذا القدر للمشتري) وقبضه.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني - (ج 7 / ص 97)
ومنها ان يهب البائع الحائط الذى بينه وبين الجار مع اصله للمشترى مقسوما ويسلمه إليه أو يهب له من الارض قدر ذراع من الجانب الذى يلى دار الشفيع ويسلمه إليه ثم يبيع منه البقية بالثمن فلا شفعة للجار لا في الموهوب ولا في المبيع (اما) في الموهوب فلانعدام شرط وجوب الشفعة وهو البيع وأما في المبيع فلانعدام سبب الوجوب وهو الجوار.
شرح الوقاية - (ج 6 / ص 462)
 إذا ادعى واحد شراء من شخص وآخر هبة وقبضا، أو صدقة وقبضا، أو رهنا وقبضا من ذلك الشخص وأقام كل منهما بينة ولا تاريخ معهما، فالشراء أولى لكونه معاوضة من الجانبين، يثبت به الملك في المعوض والعوض. والبينات ترجح بكثرة الإثبات.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

07/ محرم 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے