021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مغصوبہ زمین کی بنیاد پر شفعہ کا دعوی کرنا
80816شفعہ کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

مظفرکی زمین کے ساتھ متقیم کی جو زمین ہے یہ درحقیقت اس کی نہیں ہے یہ سب مظفرکی ماں کو اس کے والد نے اپنی زندگی میں ہبہ کی تھی اورقبضہ بھی کرادیاگیاتھا اس وقت متقیم مظفرکے نانا جو رشتے میں اس کے چچاتھے ان کے گھرمیں رہتےتھے،مظفرکے نانانے اس کو( متقیم) کولے پالک بنایاتھا،پھر متقیم نے تقسیم کرکے مظفرکی ماں سے اس زمین کا ایک حصہ حق سمجھ کرزبردستی  لےلیا۔

اب پوچھنایہ ہے کہ

    کیا وہ زمین جو مظفرکی ماں کو ان کے والد کی طرف سے بطورہبہ ملی تھی اس میں متقیم کا کوئی  حق ہے؟ کیا مقتیم کےلیے یہ زمین مظفرکی ماں سے زبردستی ہتھیالینا جائزتھا؟اورکیا اس زمین کی بنیاد پر متقیم دوسری زمین میں شفعہ کا دعوی کرسکتا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

      اگریہ حقیقت ہے کہ یہ زمین مظفرکے نانا نے مظفر کی ماں کو اپنی زندگی میں ہبہ کی تھی اوران کو اس پر قبضہ بھی کرا دیا تھا توپھر متقیم کا اس زمین کو مظفرکی ماں سے اپنا حق سمجھ کر ہتھیالیناشرعا غصب  ہے،جائزنہیں ہے ،کیونکہ متقیم کا اس میں کوئی شرعی حق نہیں بنتا، متبنی  شرعاوارث نہیں ہوتا،بھتیجا اگرچہ بعض صورتوں میں وارث ہوتاہے مگرجب یہاں زمین زندگی میں ہی ہبہ کردی گئی تھی اور قبضہ بھی کرادیا گیاتھا توزندگی میں ہی وہ مظفرکے ناناکی ملکیت سے خارج ہوگئی تھی،لہذا مقیم بالفرض وارث  ہوتا بھی تب بھی مذکورہ صورت میں اس کا کوئی حق نہ بنتا،لہذا یہ زمین جب متقیم کی نہیں ہوئی تو اس کی بنیاد دوسری زمین میں دعوی شفعہ بھی صحیح نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ﴿   الأحزاب: 4، 5﴾
وفی أحکام القرآن للتھانويؒ : ۵؍۱۸۳، کراچی:
إن الدعي والمتبنی لایلحق في الأحکام بالابن، فلا یستحق المیراث، ولا یرث عنہ المدعي.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (5 / 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (قوله: بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت.
قال العلامۃ قاضی خان رحمہ اللّٰہ: رجل وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز فی القضاء ویکون آثما فیما صنع۔ (فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الھندیۃ:ج؍۳،ص؍۲۷۹، فصل فی ھبۃ الوالد لولدہ)ومثلہٗ فی الھندیۃ:ج؍۵،ص؍۳۹۱، الباب السادس فی الھبۃ الصغیر.
وفی الفتاوى الهندية - (4 / 377)
 يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا هكذا في المحيط والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك والإذن تارة يثبت نصا وصريحا وتارة يثبت دلالة فالصريح أن يقول اقبضه إذا كان الموهوب حاضرا في المجلس ويقول اذهب واقبضه إذا كان غائبا عن المجلس ثم إذا كان الموهوب حاضرا وقال له الواهب اقبضه فقبضه في المجلس أو بعد الافتراق عن المجلس صح قبضه وملكه قياسا واستحسانا۔
شرح السنة للبغوي (8/ 229)
عن سالم، عن أبيه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه، خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين». رواه البخاري
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 8 / ص 182)
 عن أبى حرة الرقاشى عن عمه أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال :« لا يحل مال رجل مسلم لأخيه إلا ما أعطاه بطيب نفسه ». لفظ حديث التيمى وفى رواية الرقاشى :« لا يحل مال امرئ يعنى مسلما إلا بطيب من نفسه ».
الدر المختار (6/ 179):
(وحكمهای الغصب الإثم لمن علم أنه مال الغير ورد العين قائمة والغرم هالكة.
المبسوط لشمس الدين السرخسي - (ج 7 / ص 99)
الغصب ليس ببسب موجب للملك وانما هو موجب للضمان. انتھی کلام السرخسی(ولابد للشفعة عند عدم الشرکة من الجواروھویتحقق بملکیة الأرض المجاورة وھھنا لم یملکہ لأجل الغصب وعدم وجود أداء الضمان فلاتجوز الشفعة)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

07/ محرم 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے