021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ذہنی مریض کی تہمت زنا اور بچوں کی گواہی کا حکم
80804حدود و تعزیرات کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

میری والدہ ذہنی مریض ہیں کئی دہائیوں سے اور مختلف قسم کے خیالات اور خوف کا شکار رہتی ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ والد صاحب اور میں چھوٹے بھائی بہن کے ساتھ زنا بالجبر کی زیادتی کر رہے ہیں اور بچوں کے ہر کام اور قول میں غلطی تلاش کرتی رہتی ہیں، چھوٹے بھائی بہن کو ڈرا دھمکا کے اُن سے بلوا لیتی ہیں کہ والد اور بڑا بھائی اُن کو مار رہے ہیں، جنسی زیادتی کر رہے ہیں اور اُن کو گندی باتیں اور اعمال ایک دوسرے کے ساتھ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ بچوں کو پتہ بھی نہیں کہ وہ کیا بول رہے ہیں اور عجیب کیفیت میں والدہ کو خوش کرنے کے لیے بول دیتے ہیں۔ اُن کو گندی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے پوچھتی ہیں ایسے کہ وہ اُن کی غلط فہمیوں کو تسلیم کریں جواب دیتے ہوئے۔ تین سال اس غلیظ باتوں کے ماحول میں گزر گئے ہیں،چھوٹے بھائی بہن والدہ کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ کوئی اور بھی پوچھے تو بلا وجہ، بغیر سوچے، بول دیتے ہیں کے والد اور بھائی مارتے ہیں، اور زیادتی کرتے ہیں ہمارے ساتھ۔ والدہ ہمیں شرعی سزا دینے کا کہتی ہیں اور وعدہ کرتی ہیں کہ "اللہ کے بندے" اب آئیں تو خود اپنے ہاتھ سے نہ صرف قتل کریں گی، بلکہ کھال اتاریں گی اور ہڈیاں چورا چورا کریں گی مارنے سے پہلے تو الزام ہے زنا بالجبر نا بالغ بچوں کے ساتھ، بچوں سے اگر پوچھا جائے تو وہ بغیر سوچے، معمول کے مطابق، جھوٹ بول دیں گے۔ والدہ اپنے آپ کو ذہنی مریض نہیں سمجھتیں، تو ظاہر ہے، دوا بھی نہیں لیتیں۔ زنا بالجبر کے کتنے گواہ ہونے ضروری ہیں اور سزا کیا ہوگی اس صورت میں؟ کیا ایسے بچے گواہ مانے جائیں گے؟ والدہ کی گواہی کی حیثیت اور کیا قذف کی حد لاگو ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی پرزنا کی غلط تہمت لگانا بہت برااورناجائزعمل ہےاورجب یہ خود اپنی اولادیا شوہر پر ہوتو اس کی قباحت اوربھی بڑھ جاتی ہےاوراس جرم کی سزا اسلامی تعلیمات کے مطابق اسی کوڑے ہیں،البتہ صورت سؤال میں چونکہ تہمت لگانے والی ایک ذہنی مریضہ ہیں،لہذاصورت سؤال صحیح ہونے کی شرط پر ایسے مریض کی تہمت کا اعتبار نہیں اور نہ ہی بچوں کی گواہی معتبر ہے۔ لہذا نہ تو ایسی مریضہ کو حدقذف لگے گی اور نہ ہی بچوں کی گواہی سے حد زنا ثابت وجاری ہوگی۔

 واضح رہے کہ ایسا مریض جس کی بیماری کا علاج نہ کرنے سے دوسرے بھی متاثر ہوتے ہوں  اسےعلاج پر مجبور بھی کیاجاسکتا ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 45)
(ويحد الحر أو العبد) ولو ذميا أو امرأة (قاذف المسلم الحر) الثابتة حريته وإلا ففيه التعزير (البالغ العاقل العفيف) عن فعل الزنا،
 (قوله ويحد الحر إلخ) أي الشخص الحر، فلا ينافي قوله ولو ذميا أو امرأة فافهم، ولم أر من تعرض لشروط القاذف، وينبغي أن يقال إن كان عاقلا بالغا ناطقا طائعا في دار العدل، فلا يحد الصبي بل يعزر، ولا المجنون إلا إذا سكر بمحرم؛ لأنه كالصاحي فيما فيه حقوق العباد كما مر، ولا المكره ولا الأخرس لعدم التصريح بالزنا كما صرح به ابن الشلبي عن النهاية، ولا القاذف في دار الحرب أو البغي كما مر. وأما كونه عالما بالحرمة حقيقة أو حكما بكونه ناشئا في دار الإسلام فيحتمل أن يكون شرطا أيضا، لكن في كافي الحاكم حربي دخل دار الإسلام بأمان فقذف مسلما لم يحد في قول أبي حنيفة الأول، ويحد في قوله الأخير وهو قول صاحبيه اهـ فظاهره أنه يحد ولو في فور دخوله، ولعل وجهه أن الزنا حرام في كل ملة فيحرم القذف به أيضا فلا يصدق بالجهل، هذا ما ظهر لي، ولم أر من تعرض لشيء منه۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۷ذی الحجہ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے