021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لڑکیوں کے ختنہ کا حکم
81030جائز و ناجائزامور کا بیانختنہ کا بیان

سوال

کیا بچیوں کاختنہ اسلام میں ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بچیوں کا ختنہ فی نفسہ اسلام میں ہے، مستدرکِ حاکم اور مسندِ احمد وغیرہ کتبِ حدیث میں اس سے متعلق احادیث مروی ہیں۔ فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اقوال اس سلسلے میں مختلف ہیں، لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ مردوں کے لیے ختنہ کا حکم جس تاکید کے ساتھ ہے، خواتین کے لیے اس تاکید کے ساتھ نہیں، ان پر ختنہ واجب اور ضروری نہیں، وہ ختنہ نہ کرانے سے گناہ گار نہیں ہوں گی۔ لہٰذا عرف اور مصلحت کے مطابق عمل کرنا جائز ہے۔ (باستفادۃٍ من احسن الفتاوی:9/25-22، وفتاوی محمودیہ: 24/397، وفتاوی رحیمیہ:10/135)

آج کل بعض حلقوں کی طرف سے لڑکیوں کے ختنہ کو ظلم کہا جاتا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر اسلامی تعلیمات پر اعتراضات کیے جاتے ہیں، اس لیے اس کی مختصر وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔

اس حوالے سے سب سے پہلے اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ ختنہ ظلم کیسے ہوگیا؟ ختنہ کا مطلب لڑکے کی پیشاب گاہ سے زائد چمڑہ کاٹنا اور لڑکی کی پیشاب گاہ سے اضافی گوشت کاٹنا ہے۔ اگر لڑکی کا ختنہ ظلم ہے تو پھر لڑکے کے ختنے کو بھی ظلم کہنا پڑے گا کہ نابالغ اور چھوٹے بچے کو یہ تکلیف کیوں دی جاتی ہے۔ حالانکہ کوئی عقل مند یہ بات نہیں کرسکتا۔ لہٰذا جس طرح اسلام نے مردوں کے ختنہ کا حکم دیا ہے اور وہ کئی حکمتوں پر مبنی ہے، اسی طرح اسلام نے جس تفصیل کے ساتھ عورتوں کے ختنے کی اجازت دی ہے، وہ بھی کئی حکمتوں اور فوائد پر مشتمل ہے۔

دوسری بات یہ سمجھنی چاہیے کہ اسلام نے مردوں کے ختنے کو لازم قرار دیا ہے، جبکہ عورتوں کے ختنہ کو لازم قرار نہیں دیا، بلکہ اس کو خود خاتون کے لیے اور میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کے لیے مفید قرار دیا، جس کا تعلق خواتین کی جسمانی ساخت کے ساتھ ہے، لہٰذا جن علاقوں میں خواتین کی جسمانی ساخت ایسی ہو کہ اضافی گوشت زیادہ بڑھا ہوا نہ ہو وہاں ختنہ کی ضرورت نہیں پڑتی، چنانچہ ہمارے بر صغیر پاک و ہند میں اس کا رواج نہیں، لیکن جن علاقوں میں خواتین کی جسمانی ساخت ایسی ہو کہ اضافی گوشت حد سے زیادہ بڑھا ہوا ہو جس کی وجہ سے وہ ازدواجی تعلقات میں رکاوٹ بنتا ہو اور صفائی کے مسائل پیدا کرتا ہو، وہاں ختنہ کرانا بہتر ہے۔ لہٰذا خواتین کے ختنہ کا حکم نہ لازمی ہے اور نہ ہی ان پر کوئی ظلم ہے، بلکہ یہ اختیاری حکم ہے اور خواتین کے فائدے کے لیے ہے۔

اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ خواتین کے ختنہ کو بنیاد بنا کر اسلامی تعلیمات پر اعتراضات یا تو ناواقفیت اور پروپیگنڈہ کی وجہ سے کیے جاتے ہیں یا پھر اسلامی تعلیمات سے ضد اور عناد کی وجہ سے۔  

حوالہ جات
المستدرك (3/ 525):
عن الضحاك بن قيس قال: كانت بالمدينة امرأة تخفض النساء يقال لها أم عطية، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: اخفضي ولا تنهكي؛ فإنه أنضر للوجه وأحظى عند الزوج.
جامع الأحاديث للسیوطي (2/ 68)
ومن غريب الحديث : "اخفضى" : الخفض هو الختن ، والخطاب هنا لأم عطية التى كانت تختن الجوارى بالمدينة . "ولا تَنْهِكى" : لا تبالغى فى استقصاء محل الختان بالقطع . "أَنَضر للوجه" : أى أكثر لمائه ودمه وأبهج لبريقه ولمعته . "وأحظى عند الزوج" : يعنى أحسن لجماعها عنده ، وأحب إليه ، وأشهى له .
مسند أحمد (34/ 319):
حدثنا سريج حدثنا عباد يعني ابن العوام عن الحجاج عن أبي المليح بن أسامة عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الختان سنة للرجال، مكرمة للنساء.
مرقاة المفاتيح (8/ 271):
أما للنساء فمكرمة ففي خزانة الفتاوى ختان الرجال سنة، واختلفوا في ختان المرأة، قال في أدب القاضي: مكروه (هکذا في الکتاب، ولکن روي فی الهندیة"مکرمة". ولی)، وفي موضع آخر سنة، وقال بعض العلماء: واجب وقال بعضهم: فرض.
قلت: والصحيح أنه سنة؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: الختان سنة للرجال ومكرمة للنساء.
فتح الباري (10/ 340):
أفاد الشيخ أبو عبد الله بن الحاج في المدخل أنه اختلف في النساء هل يخفضن عموما أو يفرق بين نساء المشرق فيخفضن ونساء المغرب فلايخفضن لعدم الفضلة المشروع قطعها منهن، بخلاف نساء المشرق.
الفتاوى الهندية (5/ 357):
اختلفت الروايات في ختان النساء، ذكر في بعضها أنه سنة، هكذا حكي عن بعض المشايخ، وذكر شمس الأئمة الحلواني في أدب القاضي للخصاف أن ختان النساء مكرمة، كذا في المحيط.
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص: 64):
قال في السراج: وهو سنة عندنا للرجال والنساء، وقال الشافعي: واجب عليهما. وفي الفتح: يجبر عليه إن تركه إلا إذا خاف الهلاك، وإن تركته هي لا، اه. وذكر الاتقاني عن الخصاف بإسناده إلى شداد بن أوس مرفوعا: الختان للرجال سنة وللنساء مكرمة.  قال في المعراج: يعني مكرمة للرجال؛ لأن جماع المختونة ألذ.
فتح القدير (1/ 63):
وهو سنة للرجل مكرمة لها؛ إذ جماع المختونة ألذ. وفي نظم الفقه: سنة فيهما، غير أنه لو تركه يجبر عليه إلا من خشية الهلاك، ولو تركته هي لا.
الدر المختار (6/ 751):
وختان المرأة ليس سنة، بل مكرمة للرجال، وقيل سنة.
رد المحتار (6/ 751):
قوله (وختان المرأة) الصواب خفاض؛ لأنه لا يقال في حق المرأة ختان، وإنما يقال خفاض، حموي. قوله (بل مكرمة للرجال) لأنه ألذ في الجماع، زيلعي. قوله (وقيل سنة) جزم به البزازي معللا بأنه نص على أن الخنثى تختن، ولو كان ختانها مكرمة لم تختن الخنثى لاحتمال أن تكون امرأة، ولكن لا كالسنة في حق الرجال اهـ
أقول: ختان الخنثى لاحتمال كونه رجلا، وختان الرجل لا يترك؛ فلذا كان سنة احتياطا، ولا يفيد ذلك سنيته للمرأة. تأمل. وفي كتاب الطهارة من السراج الوهاج: اعلم أن الختان سنة عندنا للرجال والنساء، وقال الشافعي: واجب، وقال بعضهم: سنة للرجال مستحب للنساء؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: ختان الرجال سنة وختان النساء مكرمة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      26/محرم الحرام/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے