021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیرمسلموں کو مساجد میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت کا حکم
81303وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

مسلمانوں کا اپنی مساجد میں  غیر مسلموں کو ان کے مذہب کے مطابق عبادت کے لئے دعوت دینے کا کیا حکم ہے؟

الف۔ اگر کسی جگہ غیر مسلموں کا عبادت خانہ جل گیا ہو یا ان کا عبادت خانہ نہ ہوتب کیا حکم ہے؟

ب۔غیر مسلموں کا اپنا عبادت خانہ صحیح حالت میں موجود ہو تب کیا حکم ہے؟

ج۔اگر غیر مسلم  اہلِ کتاب سے ہوں تب کیا حکم ہے؟

2۔کیا غیر مسلم  بوقت ضرورت مسلمانوں کے مساجد میں اپنی عبادت کر سکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مساجد صرف اللہ تعالی کی عبادت اور بندگی کے لئے خاص ہیں،چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :

{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا} [الجن: 18]

ترجمہ :اور یہ کہ مساجد تو اللہ ہی کے لئے ہیں،اس لئے اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت مت کرو۔

نیز نبی آخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب اللہ کے ہاں معتبر دین صرف اور صرف اسلام ہے،چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ} [آل عمران: 19]

ترجمہ :بے شک (معتبر) دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی انہوں نے الگ راستہ لاعلمی میں نہیں،بلکہ علم آجانے کے بعد محض آپس کی ضد کی وجہ سے اختیار کیا اور جو شخص بھی اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے تو(اسے یاد رکھنا چاہیے کہ) اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

اور دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ } [آل عمران: 85]

ترجمہ: جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔

لہذا کسی غیر مسلم کو مسجد میں اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت نہیں دی جاسکتی،نہ مجبوری میں اور نہ عام حالات میں،چاہے ان کے عبادت خانے موجود ہوں یا نہ ہوں،چاہے اہل کتاب ہو یا کسی غیر آسمانی مذہب کا پیروکار ہوں۔

نیز اس بات کی اجازت دینے میں اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ موقع سے فائدہ اٹھاکر اپنے مذہب کی اشاعت اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے،جبکہ غیر مسلم اقلیتوں کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت تو ہے،لیکن اپنے مذہب کی اشاعت و تبلیغ کی اجازت نہیں۔

حوالہ جات
"فتح الباري لابن رجب" (3/ 242):
"عن عائشة، أن أم سلمة، ذكرت لرسول الله صلى الله عليه وسلم كنيسة رأتها بأرض الحبشة يقال لها مارية، فذكرت له ما رأت فيها من الصور، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أولئك قوم إذا مات فيهم العبد الصالح، أو الرجل الصالح، بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، أولئك شرار الخلق عند الله»
وهذا الحديث: يدل على تحريم التصوير في المساجد المبنيه على القبور، والصور التي في البيع والكنائس في معناها؛ لأنها صور مصورة على صور أنبيائهم وصالحيهم للتبرك بها – في زعمهم -، وكنائسهم وبيعهم منها ما هو على القبور أكابرهم، ومنها ما هو على أسمائهم، فالكل ملتحق بما بنى على القبور في المعنى، فلهذا ذكر النبي - صلى الله عليه وسلم - هذا الكلام عند ذكر الكنائس، وما فيها من الصور، وكفى بذلك ذما للكنائس المصور فيها، وأنها بيوت ينزل على أهلها الغضب والسخط، فلا ينبغي للمسلم أن يصلي فيها.
وخرج الإمام أحمد وأبو داود من رواية قابوس بن أبي ظبيان، عن أبيه، عن ابن عباس، عن النبي - صلى الله عليه وسلم -، قال: ((لا تجتمع قبلتان في أرض)) .
وقال طاووس: لا ينبغي لبيت رحمة أن يكون عند بيت عذاب. وفسره أبو عبيد وغيره: بأنه لا ينبغي الجمع بين المساجد والكنائس في ارض واحدة.
فالجمع بين فعل الصلاة التي وضعت لأجلها المساجدو بين الكفر المفعول في الكنائس في بقعة واحدة أولى بالنهي عنه، فكما أنهم لا يمكنون من فعل عباداتهم في المساجد، فكذا لا ينبغي للمسلمين أن يصلوا صلواتهم في معابد الكفار التي هي موضع كفرهم".
"تحفة الأحوذي" (3/ 221):
"قوله: (لا يصلح قبلتان في أرض واحدة) قال التوربشتي: أي لا يستقيم دينان بأرض واحدة على سبيل المظاهرة والمعادلة أما المسلم فليس له أن يختار الإقامة بين ظهراني قوم كفار لأن المسلم إذا صنع ذلك فقد أحل نفسه فيهم محل الذمي فينا وليس له أن يجر إلى نفسه الصغار وأما الذي يخالف دينه دين الإسلام فلا يمكن من الإقامة في بلاد الإسلام إلا ببذل الجزية ثم لا يؤذن له في الإشاعة بدينه انتهى".
"الدر المختار " (4/ 378):
"وجاز لكل أحد أن يمر فيه حتى الكافر إلا الجنب والحائض والدواب زيلعي".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله: حتى الكافر) اعترض بأن الكافر لا يمنع من دخول المسجد حتى المسجد الحرام، فلا وجه لجعله غاية هنا. قلت: في البحر عن الحاوي: ولا بأس أن يدخل الكافر وأهل الذمة المسجد الحرام وبيت المقدس وسائر المساجد لمصالح المسجد وغيرها من المهمات اهـ ومفهومه أن في دخوله لغير مهمة بأسا وبه يتجه ما هنا فافهم".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/صفر 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے