021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کلالہ بیٹی کی میراث کا حکم
81427میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کلالہ بیٹی جس کو والد کی جائیداد میں سے زندگی میں زمین میں سے حصہ نہیں دیا گیا۔  اُس کی فوتگی کے بعد اس کو کیا والد کی جائیداد میں سے حصہ دیا جائے گا؟ اگر دیا جائے گا تو وہ حصہ کس کو جائے گا؟

معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ محمد حسین جب فوت ہوئے تو ان کے چھ بیٹے، تین بیٹیاں اور ایک بیوہ تھی جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں حقیقی ہیں اور باقی ایک بیٹی اور دو بیٹے علاتی ہیں۔ جب محمد حسین کا انتقال ہو اتو وراثتی انتقال میں تینوں بیٹیوں کا نام نہیں ڈالا گیا جس کا تینوں بیٹیوں کو اپنی زندگی میں پتا تھا کہ جائیداد میں ان کے نام نہیں ہیں۔ اب یہ تینوں بیٹیاں فوت ہو گئی ہیں ان میں سے ایک بیٹی کی اولاد نے اپنے ماموں کے خلاف کیس کیا ہے کہ ہماری والدہ اور دو خالہ کو ان کے والد کی جائیداد میں سے حصہ نہیں دیا گیا ہے۔ کیس کا فیصلہ یہ ہوا ہے کہ محمد حسین کی جو تین بیٹیاں ہیں ان کو بھی جائیداد میں سے حصہ دیا جائے۔ ان تین بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کلالہ ہے۔ کلالہ بیٹی کا اس وقت ایک علاتی بھائی موجود ہے۔ حقیقی بہن اور بھائی اور علاتی بہن اور بھائی سب وفات پا چکے ہیں۔ اب پوچھنا یہ تھا کہ جو حصہ کلالہ بیٹی کو جائیداد میں سے دیا جائے گا وہ کب سے دیا جائے گا اس کے حیات کے حساب سے یا موجودہ فیصلہ کے لحاظ سے دیا جائے گا۔ دو ہزار پندرہ میں کلالہ بیٹی فوت ہوئی تھی۔ اس وقت اس کے دو حقیقی بھائی اور ایک علاتی بھائی اور ایک علاتی بہن موجود تھی۔

اب آپ ہمیں یہ بتائیں کہ حصہ کب سے دیا جائے گا اور کس کس کو دیا جائے گا یا اس کا حصہ اب بنتا بھی ہے کہ نہیں؟ ایک علاتی بھائی اس وقت موجود ہے۔ اور کلالہ کے بھتیجے اور بھتیجیاں بھی ہیں۔

یہ  زمین مترو کہ جائیداد یعنی بیت المال کی ہے یعنی جب اس زمین کی الاٹ منٹ چٹ پر 1988 میں عمل کر کے ڈگری لی گئی تھی اس وقت ان بیٹیوں  کے نام نکال دیئے گے تھے ۔ کیا عدالت کے فیصلے کی روشنی میں اس کا حصہ اب بنتا بھی ہے کہ نہیں؟ اگر بنتا ہے تو کیا علاتی بھائی جو اس وقت موجود ہے اس کو دیا جائے گا یا جب کلالہ فوت ہوئی تھی اس وقت جو دو بھائی اس کے حقیقی تھے ان کو دیا جائے گا۔ چونکہ کیس بھی دو ہزار  اکیس میں کیا گیا ہے جس کا فیصلہ ابھی کچھ دن پہلے آیا ہے۔

تنقیح:   سائل نے بذریعہ واٹس ایپ زبانی وضاحت یہ کی ہے  کہ چٹ الاٹمنٹ کشمیر کی زمینوں میں اس طرح ہوتی ہے کہ ہندوں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی بیت المال کی زمینیں  ہیں،  آپ کی درخواست پر آپ کو الاٹ کردی جاتی ہیں اس شرط پر کہ جب پاک بھارت کی آپس میں کوئی مفاہمت ہو  اور اصل مالک واپس آجائیں تو آپ کو یہ زمینیں چھوڑنی پڑیں گی۔ اس الاٹمنٹ چٹ کی بنیاد پر آپ وہاں کے کسٹوڈین محکمے کو ادائیگی کرکے حقوق ملکیت کی ڈگری لے سکتے ہیں۔ سائل نے وضاحت کی کہ الاٹمنٹ چٹ  تو مرحوم محمد حسین کے نام پر تھی لیکن وہ اس پر عمل درآمد کرکے حقوق ملکیت کی ڈگری نہیں لے سکے۔ان کا نتقال 1964ء میں ہوا تھا، 1982ء میں ان کے بیٹوں نے کیس فائل کرکے ادائیگی کی اور 1988ء میں حقوق ملکیت کی ڈگری ان کے بیٹوں اور بیوہ کے نام پر جاری کی گئی۔

وضاحت: سائل سے تنقیح کے لیے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ  " چٹ جاری کون کرتا ہے اور کیا اس چٹ کے بعد ملکیت کی ڈگری حاصل ہونے سے پہلے مالکانہ حقوق مل جاتے ہیں اور اس زمین پر قبضہ اور تصرف کا حق حاصل ہوجاتا ہے" تو اس کے جواب میں سائل نے جو ٹیکسٹ میسج بھیجا اس کو یہاں بعینہٖ نقل کیا جاتا ہے۔ "محکمہ کسٹوڈین جاری کرتا ہے ۔جب تک ڈگری جاری نہیں ہو جاتی تب تک زمین صرف الاٹی کے نام کہلاتی ہے ۔بہت سی چٹیں اس وقت ایک ہی خسرہ نمبر کی جاری کی  جاتیں  تھی جس کی ڈگری ہو جائے  اسی کی ملکیت ہوتی ہے"

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ محمد حسین کے انتقال کے وقت مذکورہ زمینوں کی ملکیت ان کے پاس نہیں تھی اور وہ اپنی حیات میں کسٹوڈین محکمے کو ادائیگی کرکے ڈگری نہیں لے سکےاس لیے مذکورہ جائیداد میں ان کی بیٹیاں وارث نہیں بنیں گی بلکہ جن ورثاء نے محکمے کو ادائیگی کرکے ڈگری لی ہے یہ ان کی ملکیت ہوگی۔مذکورہ جائیداد کے علاوہ اگر انتقال کے وقت ان کی ملکیت میں کچھ نقدی، سازو سامان وغیرہ تھا تو ان کا حساب کرکے اس میں آٹھواں حصہ ان کی  بیوہ کو دیا جائیگا اور باقی بیٹوں بیٹیوں میں اس طرح تقسیم کیا جائیگا کہ مرد کو دوگنا ملے گا اور عورت کو ایک گنا۔ اس میں سے جو کچھ کلالہ بیٹی کو ملے تو وہ ان ورثاء میں تقسیم کیا جائیگا جو کلالہ کے انتقال کے وقت حیات تھے، یعنی حقیقی بھائی کے ورثاء میں تقسیم کیا جائیگا اور علاتی بھائی کو کچھ نہیں ملے گا۔

حوالہ جات
{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ } [النساء: 11]
تسهيل الفرائض (ص: 60)
فيقدم في التعصيب الأسبق جهة، فإن كانوا في جهة واحدة، قدم الأقرب منزلة، فإن كانوا في منزلة واحدة، قدم الأقوى، وهو من يدلي بالأبوين على الذي يدلي بالأب وحده، لقول النبي صلى الله عليه وسلم: "فما بقي فهو لأولى رجل ذكر" 1، فالابن أولى من الأب لأنه أسبق جهة، والأب أولى من الجد لأنه أقرب منزلة، والأخ الشقيق أولى من الأخ لأب لأنه أقوى.
تسهيل الفرائض (ص: 54)
ميراث الأخوات لأب
ميراث الأخوات لأب، كميراث الأخوات الشقيقات على ما سبق تفصيله، بشرط أن لا يوجد أحد من الأشقاء، فإن وجد أحد من الأشقاء، فإن كان ذكراً سقطت الأخوات لأب،
تسهيل الفرائض (ص: 36)
ميراث الزوجة
ترث الزوجة من زوجها الربع: إن لم يكن له فرع وارث. وترث الثمن: إن كان له فرع وارث منها أو من غيرها، ولا فرق بين أن تكون الزوجة واحدة أو أكثر، فلا يزيد الفرض بزيادتهن؛ لقوله تعالى: {وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم} . "النساء: من الآية12".

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

22/ربیع الاول/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے