021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تم میرے لئے حرام ہو جاؤگی کہنے کاحکم
81428طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

جب بھی اپنی بیوی کو اپنے پاس بلاتا اور وہ آنے سے انکار کر دیتی اور کہتی ہےکہ جب میری مرضی ہوگی تب تمہیں اپنے قریب آنے دوں گی ،پھر ایک دن میں نے اپنی بیوی کو بلایا اور اس کو ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو جھگڑا ہو گیا آپس میں، بحث کرنے لگے اور ہم دونوں غصے میں تھے اور میں نے اس سے کہا کہ قسم اٹھا کے کہتا ہوں کہ تمہارے قریب نہیں اؤں گا ،جب تک تم نہیں کہو گی ،اگر تمہاری مرضی نہ ہوئی تمہارے قریب نہیں اؤں گا ،تم میرے لیے حرام ہو جاؤ گی اور میں تمہارے لیے حرام ہو جاؤں گا ،اور میں نے یہ الفاظ اپنی بیوی کو اس لیے بولے کیونکہ وہ میرے ساتھ میاں بیوی والا تعلق قائم نہیں کر رہی تھی ،یہ میں نے طلاق کی نیت سے نہیں کہا تھا اور نہ ہی میرے دل میں ایسا کوئی خیال تھا صرف اور صرف اپنے اوپر اور بیوی پر ہم بستری کو حرام ہو جائے گی کے لیے کہا تھا ،کہ جب تک تم نہیں کہو گی پھر کچھ دن بعد تقریبا 10 سے 12 دن بعد ہم اپس میں ٹھیک ہوگئے ، ناراضگی ختم کر دی اور میاں بیوی والا تعلق دونوں کی مرضی سے کر لیا ،اور اسی طرح تین چار سال گزر گئے اور پھر وہ وہ حاملہ ہوگئی ، پہلے سے ہماری ایک سات سال کی بچی تھی، اور جب وہ پھر سے حاملہ ہوئی تقریبا چار سے پانچ ماہ گزر گئے تھے، ایک دن ہماری معمولی بات پر تلخ کلامی ہوئی تو میں نے اس کے والدین سے بات کی وہ اس کو اپنے گھر لے گئے ،اس دوران اس نے اپنے والدین کو حرام والی بات کا بتایا انہوں نے میری بیوی کو بتایا تم کو تو طلاق ہو گئی ہے، اب میری بیوی کہتی ہے کہ میں اپنے گھر واپس نہیں اؤں گی کہ تم نے مجھے طلاق دی ہوئی ہے، اور اس کے والدین بھی کہتے ہیں اور تقریبا ہمارا ڈیڑھ سال کا بیٹا بھی ہے جو کہ حرام والی بات کے تقریبا تین سے چار سال بعد میں پیدا ہوا ۔ براہ کرم  رہنمائی فرمائیں

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح  ہوکہ بیوی کے حق میں  لفظ  حرام  استعمال کرنے  سے ایک  طلاق بائن واقع ہوجاتی  ہے ،طلاق کی  نیت ہویا نہ  ہو دونوں کا ایک ہی حکم ہے ،البتہ معلق  استعمال کرنے  کی صورت میں شرط  پائی جانے پر  طلاق  واقع ہوگی۔

لہذا مسئولہ صورت میں ,, قسم اٹھا کر کہتا ہوں   تمہارے قریب نہیں  آؤنگا،جب تک   تم نہیں کہوگی  اور تمہاری مرضی نہ  ہوئی  تمہارے قریب نہیں  آؤنگا ،تم میرے  لئے  حرام ہوجاؤگی  ،اور میں تمہارے  لئے حرام ہوجانگا ،،کے الفاظ  طلاق  معلق کے الفاظ ہیں ،اس کے بعد  اگر  واقعة بیوی  کے کہنے پر اس کی  مرضی سے  ہمبستری ہوئی  ہے ،تو  طلاق واقع نہیں  ہوئی  اوربیوی سے  ہمبستری  بھی  حلا  ل ہے ۔اور اگر  بیوی  نے ہمبستری  کا  نہیں  کہا  تھا  بلکہ شوہر کی  خواہش  پر  ہمبستری  ہوئی  تو  ایسے میں بیوی  پر ایک طلاق  بائن  واقع ہوئی ، نکاح  ختم ہوگیا ،اور دوبارہ  نکاح  قبول کئے  بغیر  ہمبستری کرنا حرام  ہوگیا، چونکہ  معاملہ  حلال  وحرام کا  ہے ،اس لئے  میاں  بیوی  قیا مت کے روز   اللہ  تعالی  کے سامنے  جواب دہی  کو   پیش نظر  رکھ کر فیصلہ کریں ، طلاق واقع ہوئی ہے یانہیں ؟اور طلاق  واقع ہونے  کی صورت  میں  گواہوں کی  موجودگی  میں  دوبارہ نکاح کرنا  ضروری  ہے ،اس طرح  حلال طریقہ  سے  زندگی گذار نا  جائز ہوجائے گا ،ورنہ ازدواجی  زندگی حرام  ہوگی ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252)
ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف،
 (قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية۔          

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۲۳ ربیع  الاول  ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے