021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سسر کا کپڑے کے اوپر سے بہو کو چُھونے کا حکم
81435طلاق کے احکامبیوی پر زنا کی تہمت لگانے کے مسائل

سوال

میری شادی کو چودہ سال گزر چکے ہیں، میں چھ بچوں کی ماں ہوں، شروع میں ہمارے حالات درست تھے،مگر سات سال بعد میرے سسر نے یہ حرکت کرنا شروع کی کہ وہ گزرتے ہوئے میرے کولہوں پر ہاتھ لگا کر جاتے تھے، کئی بار انہوں نے یہ حرکت کی، میں نے اپنے شوہر اور ساس کو بتایا، مگر وہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، میں نے ان کے سامنے قسمیں بھی کھائیں، مگر وہ نہ مانے۔ اس مرتبہ سسر نے میری شرمگاہ پر ہاتھ لگایا، جس پر مجھے بہت غصہ آیا، میں نے پھر شوہر اور ساس کو بتایا، مگر ان لوگوں نے میری بات ماننے کی بجائے مجھے گندی گالیاں دیں، یہاں تک کہ مجھے اپنے میکے آنا پڑا، اس وقت میں چار ماہ سے حاملہ تھی، کچھ عرصہ بعد الحمدللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹی عطا فرمائی۔

شروع میں شوہر ایک مرتبہ بیٹی کو دیکھنے آئے، اس کے بعد ابھی تک دو سال گزر چکے ہیں، وہ کبھی نہیں آئے، شروع میں میرا ان سے رابطہ تھا، اب کوئی رابطہ بھی نہیں ہے،  بچی کی ولادت اور دیگر تمام اخراجات ابھی تک میری والدہ برداشت کر رہی ہیں، شروع میں میں نے اپنے شوہر کو منانے کی کافی کوشش کی، مگر وہ اپنی بات پر بضد رہے۔ وہ اپنے والد کو سمجھانے پر بالکل تیار نہیں۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ خاموشی سے گھر آنا چاہو تو آسکتی ہو۔ اب میں دوسال سے اپنی والدہ کے گھر ہوں، سوال یہ ہے کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی عزت بچانے کے لیے جو اتنی قربانی دے رہی ہوں اس پر اللہ تعالیٰ مجھے اجر عطا فرمائیں گے؟ نیز یہ بھی یاد رہے کہ سسر نے مجھے ہرمرتبہ کپڑے کے اوپر سے چُھوا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق آپ کے سسر کا آپ کو اس طرح چھونا ہرگز جائز نہیں، وہ اس طرح کی قبیح اور فحش حرکت کر کے سخت گناہ گار ہوا ہے، جس پر اس کو اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا اور آئندہ کے لیے اس طرح کی نازیبا حرکات سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ البتہ اس نے چونکہ ہر مرتبہ آپ کو کپڑے کے اوپر سے چھوا ہے اور عام طور پر ایسے اعضاء پر شلوار اور قمیص سمیت دوہرا کپڑا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے جسم کی حرارت محسوس نہیں ہوتی، اس لیے اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی اور آپ دونوں میاں بیوی کا نکاح بدستور قائم ہے اور آپ اپنے شوہر کے گھر جا سکتی ہیں، البتہ اگر آپ کو اپنی عزت پر ہاتھ اٹھائے جانے کا غالب اندیشہ ہو تو آپ اپنی والدہ کے گھر بھی ٹھہر سکتی ہیں اور اس صورت میں آپ کو ان شاء اللہ اس کا اجروثواب ملے گا۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ اگر خاوند کو راضی کر کے گھر بسانے کی کوئی صورت ہو سکتی ہو، جیسے شوہر علیحدہ گھر میں رکھنے پر تیار ہو جائے یا وہ اپنے والد کو سمجھا دے کہ وہ آئندہ ایسی فحش حرکت نہ کرے تو ایسی صورت میں آپ کا شوہر کی بات ماننا ضروری ہے اور اس کی اجازت کے بغیر اپنی والدہ کے گھر ٹھہرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات
۔۔۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/ربیع الاول 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے