021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سسرال کا بچوں کو ماں سے نہ ملنے دینے کا حکم
81436طلاق کے احکامبچوں کی پرورش کے مسائل

سوال

میرے پانچوں بچے سسرال والوں کے پاس ہیں، وہ بچوں کو مجھ سے ملنے بھی نہیں دے رہے، میں اپنے بچوں کو یاد کر کے بہت روتی ہوں، صرف ایک چھوٹی بیٹی میرے پاس ہے، کیا سسرال کا اس طرح بچوں کواپنی ماں اور نانی سے  دور کرنا اور ماں سے ملنے نہ دینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں سسرال والوں کا بچوں کو اپنی والدہ سے نہ ملنے دینا شرعاً ظلم، زیادتی اورناجائز فعل ہے، جس کی وجہ سے سسرال والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار ہو رہے ہیں، لہذا سسرال والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کواپنی والدہ سے ملنے سےہرگز منع نہ کریں،  کیونکہ میاں بیوی  کے درمیان علیحدگی ہو جانے کی صورت میں بچوں کی تربیت کا حق شرعاً ماں کو حاصل ہے تو علیحدگی نہ ہونے کی صورت میں ماں کو بچوں سے ملنے اور ان کی تربیت کرنے کا بدرجہ اولیٰ حق ہو گا، نیز بچوں کا خرچ بہرصورت (خواہ بچے ماں کے پاس ہوں یا باپ کے پاس)باپ کے ذمہ ہو گا، لہذا جو بچی آپ کے پاس ہے اس کے مکمل اخراجات کی ادائیگی بھی باپ کے ذمہ لازم ہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 543) دار الفكر،بیروت:
الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي.
       الفتاوى التاتارخانية(ج:12،ص:273) مكتبة اعزازية، بشاور:قال محمد في الأصل: إذا كان للرجل ولد صغير وقد فارق أمه فالأم أحق بالد من الأب إلا أين يستغنيعنها، وفي الحجة مع بقاء النكاح وبعد النكاح ما لم تتزوج وفي الهداية: والنفقة على الأب.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/ربیع الاول 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے