021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرأت میں غلطی پر نماز کے فساد کا حکم
81449نماز کا بیانقراءت کے واجب ہونے اور قراء ت میں غلطی کرنے کا بیان

سوال

ہمارے مسجد کے امام حافظ قرآن ہے، لیکن تجوید مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہے۔ اس مسجد میں علماء کرام بھی نماز پڑھتے ہیں تو ایک دن دونوں کے درمیان بحث و مباحثہ ہوا اور علماء نے کہا  کہ آپ کی تجوید درست نہیں ہےآپ نستعین کی جگہ  پر نستاعین پڑھتے ہو اور الصراط کی جگہ پر الصرات۔ پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ غلطیاں اگر ہوں تو ان سے نماز پر کیا اثر پڑسکتا ہے؟ امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

الفاظ کے تلفظ کی مطلق کمی یا معنی کی مطلق تبدیلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور نماز میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں دونوں غلطیوں سے معنی میں ایسا تغیر پیدا نہیں ہوتا جس کا اعتقاد کفر ہو لہٰذا نماز ہوجائے گی،  واجب الاعادہ نہیں ہے۔

نیز امام کو چاہیے کہ درست قرات کی کوشش کریں، تمرین کے ذریعے  مذکورہ غلطیاں دور کریں، وہ خود حافظ قرآن ہے،  پیچھے علماء کرام نمازیں پڑھتیں ہیں اور غلطیوں پر تنبیہ بھی کی ہے تو امام ان کی اصلاح کی کوشش کریں ۔

حوالہ جات
 (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)
"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین".
(الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸)
"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ:  ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ
(الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲)
"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة".
(الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰)
"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة".

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

24/ربیع الاول/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے