021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فیس بک مارکیٹ پلیس پر ڈراپ شپنگ کرنا
81541خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میں فیسبک مارکیٹ پلیس پر کام کرتا ہوں۔ جہاں Uk کی کمپنیوں کی کمیشن پر الماریاں سیل کرنی ہوتی ہیں اور کمیشن پہلےسے طے شدہ ہوتا ہے۔ یو کے  کے مختلف شہروں میں الماریوں کی پوسٹیں لگانی ہوتی ہیں۔ الماریاں بلکل نئ ہوتی ہیں۔ مارکیٹ پلیس پر کسٹمرز کو اٹریکٹ کرنے انہیں پرسنل ان بکس میں لانے اور وہاں انہیں قائل کرنے کے لئیے اصل قیمت درج نہیں کرتا description میں لکھا ہوا بھی ہے کہ یہ قیمت اصل نہیں ہے، مثلا اگر قیمت 500پونڈ ہے تو مارکیٹ پلیس پر 50،55پونڈ یا اس سے کم زیادہ درج کرتا ہوں۔ جب کوئی کسٹمر آرڈر بک کرتا ہے تو آرڈر اس کے گھر پہنچنے پر اگر پسند نا آئے تو واپس کرنے کا اختیار ہوتا ہے، یہ آفر خریدار کو خریداری کے وقت بتا دیتا ہوں اور کبھی یاد نا رہنے کی وجہ سے نہیں بتا پاتا۔ سوال یہ ہے 1۔ کیا میرا کمیشن پر کام کرنا درست ہے ؟ 2۔ کیا میرا اصل قیمت کی بجائے کم قیمت لکھنا سہی ہے؟ 3۔ یہ کمائی میرے لیے جائز ہے یا ناجائز؟ 4۔ مارکیٹ پلیس پر کام کرنے کا جائز طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟رہنمائی فرمائیں جزاکم اللہ خیرا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت مطہرہ نے خرید وفروخت کے معاملات کے لیے کچھ اصول طے کردیے ہیں ۔اگر لین دین کے معاملات ان کے مطابق ہوں تو جائز ہوتے ہیں ورنہ ناجائز ہوتے ہیں۔ ان اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ جو چیز بیچی جارہی ہے وہ بیچنے والے کی ملکیت میں اور اس کے قبضے میں ہو۔ کوئی ایسی چیز بیچنا جو فروخت کرنے والے کی ملکیت اور اس کے قبضے میں نہ ہو جائز نہیں۔البتہ کسی کا وکیل بن پر کوئی چیز بیچنا اور اپنے لیے کمیشن حاصل کرنا جائزہے۔لہذا اگر آپ کا باقاعدہ کسی کمپنی کے ساتھ بطور کمیشن ایجنٹ معاہدہ ہے اور وہ آپ کو ہر الماری کی فروخت پر متعین کمیشن دیتے ہیں تو یہ جائز ہے۔

اگر آپ کا کمپنی کے ساتھ ایسا کوئی ایگریمنٹ نہیں ہے بلکہ ڈراپ شپنگ کے طور پر کام کررہے ہیں(ہماری معلومات کے مطابق یہ دوسری صورت زیادہ رائج ہے) تو درحقیقت یہ کمیشن کا نہیں بلکہ خرید وفروخت کا معاملہ ہے جس میں کسی ایک آنلائن پلیٹ فارم پر فروخت کے لیے موجود اشیاء کا اشتہار اٹھا ا کر دوسرے پلیٹ فارم پر اپنے نام سے لگادیا جاتا ہے اور آرڈر وصول ہونے پر پہلی جگہ سے چیز  سستے داموں خرید کر اپنے کسٹمر کو پہنچا دی جاتی ہے۔اور قیمتوں کا فرق بطور کمیشن حاصل کرلیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار میں بیچی جانے والی چیز نہ تو فروخت کرنے والے کی ملکیت ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر قبضہ کیا جاتا ہے تو اس وجہ سے یہ معاملہ جائز نہیں رہتا۔لہذا سوال میں ذکرکردہ طریقہ سے کام کرنا اور اس سے آمدنی حاصل کرنا جائز نہیں۔البتہ اس کام کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ پہلے وہ چیز خرید کر اپنے قبضہ میں لیں اور پھر اس کا آگے اشتہار لگا کر فروخت کریں یا دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کسٹمر کو یہ کہہ دیں کہ فی الحال یہ چیز میرے پاس موجود نہیں بلکہ میں فلاں جگہ سے خرید کر آپ تک پہنچاؤں گا۔ جب چیز آپ کے پاس پہنچ جائے گی تو پھر ہم خرید و فروخت کا معاملہ کرلیں گے۔ اگر معاملہ مذکورہ طریقے سے کیا جائے تو جائز ہوگا۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 180)
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما فلا يصح الثاني، والأول على حاله.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 146)
(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم» ، ولو باع المغصوب فضمنه المالك قيمته نفذ بيعه؛ لأن سبب الملك قد تقدم فتبين أنه باع ملك نفسه، وههنا تأخر سبب الملك فيكون بائعا ما ليس عنده فدخل تحت النهي، والمراد منه بيع ما ليس عنده ملكا؛ لأن قصة الحديث تدل عليه فإنه روي أن «حكيم بن حزام كان يبيع الناس أشياء لا يملكها، ويأخذ الثمن منهم ثم يدخل السوق فيشتري، ويسلم إليهم فبلغ ذلك رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال لا تبع ما ليس عندك» ، ولأن بيع ما ليس عنده بطريق الأصالة عن نفسه تمليك ما لا يملكه بطريق الأصالة، وأنه محال. وهو الشرط فيما يبيعه بطريق الأصالة عن نفسه فأما ما يبيعه بطريق النيابة عن غيره ينظر إن كان البائع وكيلا وكفيلا فيكون المبيع مملوكا للبائع ليس بشرط، وإن كان فضوليا فليس بشرط للانعقاد عندنا بل هو من شرائط النفاذ فإن بيع الفضولي عندنا منعقد موقوف على إجازة المالك، فإن أجاز نفذ، وإن رد بطل. . .الخ
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 47)
قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ

عبدالقیوم   

دارالافتاء جامعۃ الرشید

04/ربیع الثانی/1445

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے