021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یوٹیوب کی آمدن
81520اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

سوال:    آج کل یوٹیوب پر ویڈیو اپلوڈ کرنے کا رواج عام ہے اور بہت سارے لوگوں کی کمائی کا ذریعہ بھی ہے۔ مگر ایسی جگہ جہاں پر فحش مواد اور اچھا مواد دونوں موجود ہوں تو ایسی جگہ سے کمائ جائز ہے؟ مثال کے طور پر ایک شخص نے آپ کی ویڈیو دیکھی مگر اس تک پہنچنے سے پہلے اس نے فحش مواد بھی دیکھا، بھلے سرسری طور پر تو ایسی کمائ اور ایسی جگہ کی کمائ حلال ہوگی؟ کیونکہ کسی نہ کسی صورت مواد غیر ضروری تشہیر ہوتا ہے؟ میں نے ایک دین دار شخص سے سنا تھا کہ پانی میں ایک قطرہ بھی گند شامل ہوجائے تو وہ پورا گلاس ناپاک ہوجاتا ہے ؟ رہنمائ فرمائیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے سوال کا جواب دو نکات پر مشتمل ہے:

1.     یوٹیوب سے حاصل شدہ کمائی فی نفسہ جائز ہے یا ناجائز؟

2.     یوٹیوب پر موجود فحش مواد کا اثر کمائی پر ہوتا ہے یا نہیں؟

پہلا نکتہ: یوٹیوب سے حاصل شدہ کمائی کا حکم:

یوٹیوب سے مختلف طریقوں سے آمدن حاصل کی جاتی ہے جن میں معروف یہ ہیں:

1.     مختلف کمپنیوں کی چیزوں پر ریویو دینا یا ان کی مارکیٹنگ کرنا۔ اس صورت میں جس چیز کی مارکیٹنگ کی جائے وہ جائز ہو اور دھوکہ دہی سے کام نہ لیا جائے تو اس کی آمدن حلال ہے۔

2.     یوٹیوب کا پریمیم چینل بنانا جہاں دیکھنے والے فیس ادا کر کے ویڈیوز دیکھ سکیں۔ اس صورت میں اگر آپ کی ویڈیوز جائز کام پر مشتمل ہیں تو اس کی آمدن بھی حلال ہے۔

3.     یوٹیوب کے پریمیم ممبرز کی فیس میں سے کچھ حصہ جو یوٹیوب بطور انعام دیتا ہے۔ اس کی آمدن بھی اس شرط کے ساتھ حلال ہے کہ آپ جو ویڈیو دکھائیں وہ جائز چیز پر مشتمل ہو۔

4.     یوٹیوب پر اپنے چینل اور ویڈیوز کی جگہ اشتہارات کے لیے دینا جن پر گوگل ایڈسینس بطور اجرت رقم ادا کرتا ہے۔ اس میں کچھ تفصیل ہے:

یوٹیوب چینل پر اشتہارات لگانے کا عمل گوگل ایڈ سینس کے ذریعے ہوتا ہے۔ گوگل چینل مالک سے اس کے چینل پر جگہ اجارے پر لیتا ہے اور اس کی اجرت اسے ادا کرتا ہے۔ اس میں تین طرح کے اشتہارات ہوتے ہیں: تحریری، تصویری اور ویڈیو۔ ان کی کمائی کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

تحریری و تصویری اشتہارات:

تحریری و تصویری اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدن تین شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1.     جس کاروبار کا اشتہار ہے وہ کاروبار جائز ہو۔ لہذا ان کیٹگریز کو فلٹر کر دیا جائے جو شرعاً جائز نہیں ہیں۔

2.     گوگل ایڈسینس، یوٹیوب اور چینل کے مالک کے درمیان طے شدہ شرائط پر مکمل عمل کیا جائے اور ایسا کوئی فعل نہ کیا جائے جو معاہدے کے خلاف ہو۔

3.     کسی جائز پراڈکٹ کے اشتہار میں اگر گوگل کی طرف سے کوئی ناجائز مواد مثلاً فحش تصویر وغیرہ شامل کر دی جائے اور اس میں چینل کے مالک کی اجازت یا رضامندی شامل نہ ہو تو مالک اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہذا اگر کیٹگریز فلٹر کرنے کے باوجود کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو کسی ناجائز کاروبار کی جانب لے جا رہا ہو یا ناجائز مواد (مثلاً نامحرم کی تصاویر) پر مشتمل ہو  تو اس کا گناہ چینل مالک کو نہیں ہوگا۔ البتہ ایڈ ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کر دی جائے۔

ویڈیو اشتہارات:

جو اشتہارات ویڈیو کی شکل میں ہوں ان کی آمدن مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1.     جس کاروبار کا اشتہار ہے وہ کاروبار جائز ہو۔ لہذا ان کیٹگریز کو فلٹر کر دیا جائے جو شرعاً جائز نہیں ہیں۔

2.     گوگل ایڈسینس، یوٹیوب اور چینل کے مالک کے درمیان طے شدہ شرائط پر مکمل عمل کیا جائے اور ایسا کوئی فعل نہ کیا جائے جو معاہدے کے خلاف ہو۔

3.     کسی جائز پراڈکٹ کے اشتہار میں اگر گوگل کی طرف سے کوئی ناجائز مواد مثلاً فحش تصویر وغیرہ شامل کر دی جائے اور اس میں چینل کے مالک کی اجازت یا رضامندی شامل نہ ہو تو مالک اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ لہذا اگر کیٹگریز فلٹر کرنے کے باوجود کوئی ایسا اشتہار لگ جائے جو کسی ناجائز کاروبار کی جانب لے جا رہا ہو یا ناجائز مواد (مثلاً نامحرم کی تصاویر) پر مشتمل ہو  تو اس کا گناہ چینل مالک کو نہیں ہوگا۔ البتہ ایڈ ریویو سینٹر میں اشتہارات کا جائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کر دی جائے۔

4.     بیک گراؤنڈ میوزک تکنیکی لحاظ سے ویڈیو سے الگ چیز ہے جسے ویڈیو میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ چینل کا مالک گوگل ایڈسینس کو ویڈیو لگانے کے لیے اجارے کے طور پر جگہ دیتا ہے ، بیک گراؤنڈ میوزک لگانے کے لیےنہیں دیتا۔ لہذا اگر اشتہار کا مواد اور بنیادی کاروبار جائز ہو لیکن اس کے بیک گراؤنڈ میں میوزک ہو تو مالک پر لازم ہے کہ اولاً بذریعہ ای میل یا کسی اور طریقے سے صراحتاً گوگل کو میوزک  نہ لگانے کا کہے۔ اگر گوگل میوزک نہیں ہٹاتا  تو مالک اپنے چینل اور ویڈیوز میں یہ تحریر کر دے کہ اشتہار کی آواز بند کر دی جائے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص آواز بند نہیں کرتا تو اس کا گناہ مالک کو نہیں ہوگا اور اس کی آمدن جائز ہوگی۔

دوسرا نکتہ:یوٹیوب پر موجود فحش مواد کا کمائی پر اثر:

سمجھنا چاہیے کہ یوٹیوب کی مثال ایک بازار جیسی ہے جہاں ہر شخص اپنا مال لیے بیٹھا ہے اور اپنی دوکان کی دیوار اشتہار لگانے کے لیے دے رکھی ہے۔ ایسی صورت میں اگر بازار میں فحش اشیاء، بے پردہ خواتین اور گانے باجے والے بھی موجود ہوں تو ان کی ذمہ داری اس دین دار تاجر پر نہیں ہوتی جو شرعی تقاضے پورے کر کے اپنی دوکان میں حلال و جائز مال رکھ کر بیٹھا ہو۔ بازار میں داخل ہونے والا گاہک تمام دوکانوں سے گزر کر آئے گا اور یہ اس کا اپنا اختیار ہے کہ وہ کس قدر گندگی سے خود کو بچاتا ہے اور کس قدر سے نہیں بچاتا؟ اس کا گناہ دین دار تاجر پر نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی جائز آمدن اس گاہک کے عمل کی وجہ سے ناجائز ہوگی۔

اسی طرح یوٹیوب پر اگر کسی شخص نے اپنے چینل پر ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کی ہوئی ہیں جو شرعاً جائز ہیں اور کوئی آنے والا شخص کوئی فحش یا ناجائز چیز دیکھ کر اس کی ویڈیو پر آتا ہے تو اس کا گناہ اس چینل کے مالک کو نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
قال الحصكفيؒ: " (و) جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة زيلعي."
قال ابن عابدين ؒ: " (قوله وجاز إجارة بيت إلخ) هذا عنده أيضا لأن الإجارة على منفعة البيت، ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ولا معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فينقطع نسبيته عنه، فصار كبيع الجارية ممن لا يستبرئها أو يأتيها من دبر وبيع الغلام من لوطي والدليل عليه أنه لو آجره للسكنى جاز وهو لا بد له من عبادته فيه اهـ زيلعي وعيني ومثله في النهاية والكفاية۔۔۔."
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/392، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

05/ ربیع الثانی 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے