021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پاکستانی کااپنے آپ کو امریکی شہری ظاہرکرکے کاغذات بنوا کر پروجیکٹ لینا
81912اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

ہماری آئی ٹی کی کمپنی میں لوگ آئی ٹی پروجیکٹ پر  کام کرتے ہیں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم باہر ممالک سے آئی ٹی کے پروجیکٹ لیتے ہیں اور ان پروجیکٹس پر لوگ کام کرتے ہیں ۔  کمپنی نے لوگوں کو یہ آفر بھی کی ہے کہ جو شخص خود پروجیکٹ لے کر آئے گا تو اس پروجیکٹ کا 40% اس کو ملے گا اور 60%  کمپنی لے گی، کیونکہ جب وہ پروجیکٹ لے کر آتا ہے تو اس پروجیکٹ کے کرنے کے لیے جو بھی ریسورسز چاہیے ہوتے ہیں وہ کمپنی پرووائیڈ کرتی ہے تو اس لیے کمپنی پرافٹ میں زیادہ حصہ لیتی ہے ۔

آج کل ایسا ہو رہا ہے کہ  انٹرنیشنل آن لائن پلیٹ فارمز سے کوئی بھی فارنر  اپنے آپ کو امریکن شو کرتا ہے اور اس نے اپنی آئی ٹی کی پروفائل بنائی ہوئی ہے اور اس کا پتہ نہیں کہ اصلاً وہ  امریکن ہے یا کسی اور ملک کا شہری ہے اور وہ آئی ٹی کا کام جانتا بھی ہے یا نہیں(اکثر وہ آئی ٹی کے کام سے واقف نہیں ہوتا، اس نے اپنی جو سی وی بنائی ہوئی ہے اس میں جو ڈگریزمینشن کی ہوئی ہوتی ہیں وہ فیک ہیں، وہ اس نے امریکہ سے کسی بندے کو 2 سے 3 سو ڈالر دے کر بنوائی ہوتی ہے)۔ اب وہ آئن لائن پلیٹ فارم پر ایسےلوگوں سے رابطہ کرتا ہے جو آئی ٹی کے ایکسپرٹ  ہوں ان کو وہ یہ پیشکش کرتا ہے کہ وہ اس کی پروفائل پر اور اس کی امریکن نیشلیٹی پر پروجیکٹ لیں (چونکہ اس کے پاس امریکن نیشنیلٹی ہوتی ہے تو اس کے نام پر پروجیکٹ مل جاتا ہے اگر یہی آئی ٹی ایکسپرٹ جو کہ امریکن نیشنل نہیں  وہ اپنی پروفائل پر پروجیکٹ کے لیے جائے گاتو اسے پروجیکٹ نہیں ملے گا )  اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے اس فارنر کی پروفائل پر پاکستانی آئی ٹی ایکسپرٹ جائے گا انٹرویو دے گا اور اپنے آپ کو فارنر ہی شو  کرے گا مثلا اگر وہ فارنر جونز ہے تو یہ بھی اپنے آپ کو جونر شو کرے گا اور جب کلائنٹ اس پاکستانی سے امریکن نیشنلٹی کے پروف مانگے گا مثلا ڈرائیونگ لائنسنس اورNTNنمبر وغیرہ تو یہ پاکستانی اس فارنر (جونز) کو کہے گا کہ مجھے یہ ڈاکومنٹس ضرورت ہیں، کلائنٹ کو دکھانے کے لیے تو فارنر امریکن ڈرائیونگ لائنسنس ، NTNنمبر وغیرہ اسی پاکستانی کی تصویر کے ساتھ ہی فیک بنوا کر بھیج دے گا (اس فارنر سے تفصیل پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ 2سے 3 سو ڈالر میں فیک ڈاکومنٹس تیار کروا لیتا ہے ) اب یہ پاکستانی اپنے امریکن نیشنل ہونے کے ثبوت کے طور پر یہ ڈاکومنٹس کلائنٹ کو بھیج دیتا ہے اور پھر اس پاکستانی کو فارنر (جونز)   کے نام پر یہ پروجیٹ مل جاتا ہے ۔تواب وہ فارنر  اس پروجیکٹ کی پیمنٹ میں سے کچھ اس پاکستانی کو ادا کر کے باقی خود رکھ لیتا ہے ۔

اب ہماری کمپنی کےملازمین بھی اس طرح کسی فارنر کے نام پر پروجیکٹ لے کر آ جاتے ہیں اور کمپنی میں یہ شو کرتے ہیں کہ وہ خودیہ پروجیکٹ لے کر آئے ہیں اور پھر کمپنی کی آفر کے مطابق کمپنی کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں اور فارنر کی طرف سے جو پیمنٹ ملتی ہے اس کا 40% ان کو مل جاتا ہے اور 60% کمپنی کو ۔اب یہاں دو سوال ہیں :

1۔ کیا  کسی فارنر کے نام پر پروجیکٹ لینا اور پھر اپنے آپ کو فارنر شو کرنا اور اپنی تصویر اس کے ڈاکومنٹس پر لگا کر فیک ڈاکومنٹس تیار کر کے اس طرح کا پروجیکٹ لینا جائز ہے ؟

2۔ اگر کمپنی کا کوئی ملازم اس طرح کا پروجیکٹ لے آئے تو کیا کمپنی اس کے ساتھ آفر کے مطابق معاملہ کرسکتی ہے؟  کیونکہ پروجیکٹ لینے یا فیک ڈاکومنٹیشن کے کسی مرحلہ پر کمپنی اس کی معاون  نہیں ۔اگرچہ کمپنی کو یہ علم ہوتا ہے کہ یہ پروجیکٹ اس طرح لایا گیا ہے ۔تو کیا شرعا ایسے پروجیکٹ کمپنی کے لیے لینا جائز ہیں یا نہیں ؟

3۔ اگر یہ جائز نہیں تو ابھی تک جو پروجیکٹ کمپنی نے لے لیے ہیں اور ان پر کام چل رہا ہے تو ان کا کیا حکم ہے ؟ ان کی اب تک کی آمدن حلال ہے یا حرام اور آئندہ ان پروجیکٹس کو چھوڑنا ضروری ہے یا ان کو جاری رکھا جا  سکتا ہے ؟ اور اگر جائز نہیں تو اس کے جواز کی کوئی صورت بن سکتی ہے یا نہیں ؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ ہمارے ہاں ویب سائٹ، سوفٹ ویئر یا کوئی ایپ بنانے کے پروجیکٹ آتے ہیں،کمپنیز اس مقصد کے لیے اشتہار دیتی ہیں کہ ہمیں یہ سوفٹ ویئر چاہیے، البتہ اس کے لیے وہ کچھ شرائط لگاتی ہیں کہ وہ شخص امریکن شہریت رکھتا ہو اور آئی ٹی کا ایکسپرٹ ہو، کیونکہ کمپنیز عام طور پر ستر فیصد پروجیکٹ امریکن شہریوں کو ہی دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کمپنی کو کسی دوسرے شخص سے پروجیکٹ تیار کروانے کا علم ہوتا ہے تو بعض اوقات کمپنی معاہدہ ختم کر دیتی ہے اور بعض اوقات جاری رکھتی ہے، نیز فارنر کا مطلب وہ شخص ہے جو کمپنی سے پروجیکٹ لیتا ہے، خواہ وہ امریکی شہری ہو یا نہ ہو۔

عموما امریکن کمپنیاں امریکن نیشنل لوگوں سے ہی کام کروانا چاہتے ہیں پاکستانیوں کو کام نہیں دینا چاہتے، اس لیے تو اتنا کچھ فیک تیار کیا جاتاہے۔اگرچہ قانون اس بات کی گنجائش دیتا ہے کہ کنٹریکٹ بیس پروجیکٹ میں کنٹریکٹر ہی کام کرنے کا پابند نہیں ہے بلکہ وہ کسی سے بھی کام کروا سکتا ہے، امریکہ سے باہر کام میں خرابی آ جائے تو اب کام کروانے والی کمپنی کنٹریکٹر کو عدالت میں نہیں لا سکتی۔ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ صورتِ مسئولہ میں امریکی شخص کے علاوہ پاکستانی یا کسی اور ملک کے باشندے کا کمپنی سے پروجیکٹ لینے کے لیے اپنے آپ کو امریکی ظاہرکرکےفیک ڈاکومنٹس تیار کر نے میں دھوکہ دہی، غلط بیانی اور جھوٹ کا ارتکاب کرنا لازم آتا ہے، جس کی شریعت میں قطعاً اجازت نہیں، لہذا غیر امریکی شخص کا اپنے آپ کو امریکی ظاہر کرکے یا آئی ٹی میں مہارت نہ رکھنے والے شخص کا اپنے آپ کو آئی ٹی کا ایکسپرٹ ظاہر کرکے پروجیکٹ لیناجائزنہیں۔

 یہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا ایسے شخص کے لیے پروجیکٹ مکمل کرنے کی اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کمپنی کی طرف سے یہ شرط نہیں ہوتی کہ یہ پروجیکٹ  فارنر خود ہی تیار کر کے دے، (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) تو اس کے ساتھ کیا گیا یہ معاہدہ شرعاً درست اور منعقد ہو جائے گا، البتہ کمپنی کو جعل سازی کا علم ہونے پر معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہو گا (كما يجوز للمشتري فسخ البيع إذا لم يكن المبيع موافقا للأوصاف المذكورة عند العقد)  اور اگر کمپنی کو علم نہ ہوا یا علم ہونے کے باوجود کمپنی خاموش رہی اور پھر یہ شخص کمپنی کی شرائط اور معیار کے مطابق پروجیکٹ تیار کرکے دے تو اس صورت میں کمپنی سے پروجیکٹ بنا کر دینے کی اجرت لینا جائز ہے، اگرچہ اس شخص کو دھوکہ دہی اور غلط بیانی کا گناہ ہو گا، جس سے بچنا اس پر از حد لازم  ہے۔

2،3۔ اگر فیک ڈاکومنٹس تیار کرنے اور کمپنی سے پروجیکٹ لینے کے کسی مرحلہ پر کمپنی  اس شخص یعنی فارنر کی معاون  نہ بنتی ہو (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) اور پروجیکٹ بھی فی نفسہ شرعاً جائز ہو،یعنی کسی حرام کام میں استعمال ہونے والا سوفٹ ویئر یا ویب سائٹ وغیرہ نہ بنائی جائے تو اس صورت میں اس طرح کا پروجیکٹ لینے کی اجازت ہے، کیونکہ آپ کا فارنر کے ساتھ سوفٹ ویئر بنا کر دینے کا معاملہ شرعاً اجارے کا ہے اور اجارہ میں کیا جانے والا کام شریعت کے اصولوں کی روشنی میں اگر ناجائز نہ ہو تو اس کی اجرت لینا جائز ہوتا ہے، باقی غلط بیانی اور دھوکہ دہی کا گناہ اسی شخص کو ہو گا جو دھوکہ دے کر پروجیکٹ لایا ہے،  لہذا آپ کے لیے اس طرح کے آئی ٹی کے جائز سابقہ پروجیکٹس کو چھوڑنا ضروری نہیں، البتہ آپ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ اپنی کمپنی کے ایسے ملازمین کو اس طرح غلط بیانی اور دھوکہ دہی کے ذریعہ پروجیکٹ لینے سے منع کریں۔

حوالہ جات
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (المادة 433) دار الجيل،بیروت:
تنعقد الإجارة بالإيجاب والقبول كالبيع.
أي تنعقد في حق المتعاقدين بالألفاظ الموضوعة للإجارة إذا صدر الإيجاب والقبول من أشخاص مختلفين فإذا استأجر شخص دارا من آخر سنة ومضى شهر ولم يسلمها له فأقام عليه دعوى بعد مرور الشهر ولزم تسليمها.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (المادة 448) دار الجيل،بیروت:
يشترط في صحة الإجارة رضا العاقدين، رضا العاقدين في صحة العقود شرط.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 247) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "وتفسخ الإجارة بالأعذار" عندنا. وقال الشافعي رحمه الله: لا تفسخ إلا بالعيب؛ لأن المنافع عنده بمنزلة الأعيان حتى يجوز العقد عليها فأشبه البيع. ولنا أن المنافع غير مقبوضة وهي المعقود عليها فصار العذر في الإجارة كالعيب قبل القبض في البيع فتنفسخ به، إذ المعنى يجمعهما وهو عجز العاقد عن المضي في موجبه إلا بتحمل ضرر زائد لم يستحق به، وهذا هو معنى العذر عندنا.
الموسوعۃ الفقہیۃ الكويتية :الغش، ‌‌الحكم التكليفي، ج:31، ص:219،220، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية – الكويت:
 "اتفق ‌الفقهاء ‌على ‌أن ‌الغش حرام سواء أكان بالقول أم بالفعل، وسواء أكان بكتمان العيب في المعقود عليه أو الثمن أم بالكذب والخديعة، وسواء أكان في المعاملات أم في غيرها من المشورة والنصيحة.
وقد ورد في تحريم الغش ما روى أبو هريرة رضي الله تعالى عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس من غشنا فليس مني. وفي حديث آخر: من غشنا فليس منا...... فلا يحل لامرئ مسلم أن يبيع سلعة من السلع أو دارا أو عقارا أو ذهبا أو فضة أو شيئا من الأشياء - وهو يعلم فيه عيبا قل أو كثر - حتى يبين ذلك لمبتاعه، ويقفه عليه وقفا يكون علمه به كعلمه، فإن لم يفعل ذلك وكتمه العيب وغشه بذلك لم يزل في مقت الله ولعنة ملائكة الله.

  محمد نعمان خالد

  دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

  7/جمادی الاولیٰ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے