03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تیجہ، ہفتم، چالیسویں اور برسی کا حکم
81944جنازے کےمسائلایصال ثواب کے احکام

سوال

ہمارے گاؤں میں جب کوئی آدمی مر جاتا ہے تو اس کے گھر والے تین دن بعد صدقہ کرتے ہیں، پھر ہفتہ پورا ہونے پر جمعرات کے دن ظہر یا عصر کی نماز کے بعد اس کے لیے قرآن مجید کا ختم کرتے ہیں اور لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اس طریقے سے سات جمعرات یہ عمل کرتے ہیں۔ جب چالیس دن ہوجاتے ہیں تو میت کے گھر والے قرآن مجید ختم کرتے ہیں اور زیادہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں۔ جب ایک سال پورا ہوجاتا ہے تو دوبارہ ختمِ قرآن اور دعوت کرتے ہیں۔ اس کے بعد پوری زندگی کچھ بھی نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے کام کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ کسی آدمی کے فوت ہونے کے بعد اس کے لیے صدقہ کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی کے فوت ہونے کے بعد اس کو ثواب پہنچانے کی نیت سے صدقہ، خیرات، قرآن مجید کی تلاوت اور دیگر نیک اعمال کرنا بلا شبہہ جائز ہے، لیکن ان کے لیے کسی دن اور تاریخ کو ضروری سمجھ کر خاص کرنا جائز نہیں، بدعت ہے۔ اس لیے سوال میں ذکر کردہ امور یعنی تیجہ، چالیسواں اور برسی وغیرہ جائز نہیں، ان سے بچنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے مرحومین کے لیے شریعت کے مطابق مستقل ایصالِ ثواب کا اہتمام کرتے رہیں، چند ماہ کے بعد ان کو بھول جانا درست طرزِ عمل نہیں۔

حوالہ جات

الفتاوى البزازية (1/ 38):

ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع والأعياد، ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة بقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص، فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء القرآن لأجل الأكل يكره.

رد المحتار (2/ 240):

ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة.   وروى الإمام أحمد وابن ماجة بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد

الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام الطعام من النياحة اه.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

   10/جمادی الاولیٰ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب