03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ذہنی طور پر معذور شخص کی نمازوں کا فدیہ واجب ہوگا یا نہیں؟
81928نماز کا بیانمریض کی نماز کا بیان

سوال

ایک دن کی نمازوں کا فدیہ کتنا ہے؟ میرے والد صاحب کا گھر ہے اور والد صاحب ابھی حیات ہیں، اگر ہم والد صاحب کا وہ گھر بیچتے ہیں تو ان کی نمازوں کا فدیہ اس گھر کی رقم سے دے سکتی ہوں؛ کیونکہ والد صاحب ابھی معذور ہیں اور نماز نہیں پڑھ سکتے۔

تنقیح: سائلہ نے فون پر بتایا کہ والد صاحب کی ذہنی حالت ایسی ہے کہ جب استنجاء کرنے جاتے ہیں تو ان کو یہ پتا نہیں چلتا کہ استنجاء کیسے کرنا ہے، بار بار پانی پاؤں پر ڈالتے ہیں، پندرہ، بیس منٹ، گھنٹہ، دو گھنٹہ واش روم میں بیٹھے ہوتے ہیں، پانی بھرتے ہیں اور پاؤں پر اور واش روم میں ڈالتے ہیں، ٹینکی میں پانی ختم ہوجاتا ہے تو بس کر لیتے ہیں، کبھی استنجاء کر لیتے ہیں، کبھی نہیں کرتے، پھر بچے کروالیتے ہیں۔ نماز کا ان کو کچھ پتا نہیں چلتا، کبھی کبھار ہفتہ بعد، دس دن بعد اٹھ کر ہاتھ منہ دھو کر آجاتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ قبلہ کس طرف ہے اور کس طرف نہیں، جائے نماز ہے یا نہیں، بس کھڑے ہوجاتے ہیں، یہ پتا بھی نہیں ہوتا کہ کتنی رکعتیں پڑھنی ہیں، پھر ہم جائے نماز ڈال کر کہتے ہیں اب نماز پڑھیں، تو پتا نہیں کتنی رکعتیں پڑھتے ہیں، کس طرح پڑھتے ہیں۔ کافی دیر تک رکوع، سجدہ کرتے رہتے ہیں، پھر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی وقت مجھے بھی نہیں پہچانتے،کبھی کہتے ہیں یہ میری ماں ہے، کبھی کہتے ہیں یہ میری بہن ہے، کسی وقت ذہن تھوڑا ٹھیک ہو تو کہتے ہیں یہ میری بیٹی ہے۔ کبھی کسی کپڑے کو اٹھا کر کہتے ہیں یہ میرا گھر ہے، کبھی کسی پتھر کو کہیں گے یہ میرا گھر ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اس حالت میں آپ کے والد صاحب پر نماز کی ادائیگی فرض نہیں، اس لیے ان کی اس حالت کی نمازوں کا فدیہ واجب نہیں ہوگا۔ البتہ اگر ان کے ذمے صحت کے زمانے کی کچھ نمازیں باقی ہوں جن کا فدیہ اداکرنے کی انہوں نے وصیت کی ہو تو وفات کے بعد ایک تہائی ترکہ کی حد تک ان کا فدیہ دینا واجب ہوگا، اگر انہوں نے وصیت نہیں کی تو فدیہ ادا کرنا ضروری نہیں ہوگا، لیکن اگر آپ اپنے حصے سے ادا کریں گی تو ان شاء اللہ ان کا ذمہ فارغ ہوگا اور آپ کو اجر و ثواب ملے گا، اسی طرح اگر انہوں نے وصیت کی ہو لیکن نمازوں کا فدیہ ایک تہائی ترکہ سے زیادہ بنتا ہو تو ایک تہائی سے زیادہ کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی، لیکن اپنے حصے سے ادا کرنے پر ان شاء اللہ ان کا ذمہ بری ہوگا ۔ ایک دن کی چھ نمازوں کا فدیہ ادا کیا جائے گا، پانچ فرض نمازیں اور ایک وتر کی نماز۔  ایک نماز کا فدیہ ایک صدقۃ الفطر کے برابر ہوتا ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار (2/ 100):
( ولو اشتبه على مريض أعداد الركعات والسجدات لنعاس لحقه لا يلزمه الأداء ) ولو أداها بتلقين غيره ينبغي أن يجزيه، كذا في القنية.
رد المحتار (2/ 100):
قوله (ولو اشتبه على مريض الخ) أي بأن وصل إلى حال لا يمكنه ضبط ذلك، وليس المراد مجرد الشك والاشتباه؛ لأن ذلك یحصل للصحیح.
البحر الرائق (2/ 125):
وفي القنية…….ولو كان يشتبه على المريض أعداد الركعات أو السجدات لنعاس يلحقه لا يلزمه الأداء، ولو أداها بتلقين غيره ينبغي أن يجزئه ا هـ  

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      11/جمادی الاولیٰ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے