81946 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ میں ایک گیمنگ ایجنٹ ہوں۔ہمارے کام کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کہ ہم (Sudo Marketing)کرتے ہیں یعنی Fake آئی ڈیز بنا کر USکے لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں انہیں گیم کھیلنے پر آمادہ کرتے ہیں یا پھر وہ خود رضامندی سے کھیلتے ہیں،گیم کھیلنے کا طریقہ کار کچھ اسطرح ہے کہ ہم ان کا اکاؤنٹ بناتے ہیں اور اس میں ڈالرز کی وصولی کے بعد ٹوکن (Coin) ڈلواتے ہیں ۔اگر کھلاڑی جیت جائے تو اس کے ٹوکن بڑھ جاتے ہیں اور وہ پیسے نکلواسکتا ہے،جبکہ ہارنے کی صورت میں ٹوکن کم ہوجاتے ہیں یعنی اس کا پیسہ ضائع ہوجائے گا،تو کیا اس طرح کمانا جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں فیک آئی ڈی کے ذریعے گیم کھیلنے والے کو سکے (Coins) بیچ کر پیسے کمانا درج ذیل وجوہ کی بنا پر جائز نہیں ہے :
-1 شریعت میں کسی بھی چیز کی خرید وفروخت کے جواز اور عدم جواز کا مدار اس کے مال متقوم (Valuable and Valid in Shariah) ہونے نہ ہونے پر ہے،جو مال شرعا متقوم ہوگا اس کی خرید وفروخت جائز ہے اور جو متقوم نہیں اس کی خرید وفروخت جائز نہیں۔
مال کے متقوم ہونے کے لیے دو چیزوں کا تحقق ضروری ہے:-1 محرز بالفعل ہو،یعنی وہ مال عملاً کسی کے قبضہ میں ہو۔-2 اس مال میں ایسا انتفاع ہو جو شرعا جائز ہو،یعنی شریعت نے اس انتفاع کے حصول سے منع نہ کیا ہو۔کسی چیز کی مالیت عرف اور مارکیٹ کی روشنی میں طے ہوتی ہے،جبکہ تقوّم شریعت کی روشنی میں طے ہوتی ہے۔لہذا جو چیز مال ہو اور متقوم بھی ہو اس کا بیچنا جائز ہے،اس کے برعکس اگر کوئی چیز سرے سے مال ہی نہ ہو،یا عرف کی نظر میں مال تو ہو لیکن شریعت میں اس کا کوئی بھی ممکنہ جائز استعمال نہ ہو تو اس چیز کی خرید وفروخت شرعا ممنوع ہے۔چونکہ گیم کے سکوں کو مفتیان کرام نے اب تک کی تحقیق کے مطابق مال تصور نہیں کیا ہے،اس بنا پر گیم کے سکوں کو بیچ کر کمانا جائز نہیں۔
-2فیک آئی ڈی کے ذریعہ امریکہ کے لوگوں کے ساتھ رابطہ کرنا،یہ عمل جھوٹ اور دھوکہ دہی ہے،جس سے شریعت نے منع کیاہے،لہذا فیک آئی ڈی کے زریعہ بھی پیسے کمانا شرعا جائز نہیں ہے۔
-3اس گیم میں ہار جیت پر پیسہ لگایا جاتا ہے،جس میں جیتنے والے کو دوسروں کے پیسے مل جاتے ہیں،جبکہ ہار والے کے ٹوکن دوسرے کے پاس منتقل ہوکر اس کے پیسے ضائع ہوجاتے ہیں،یہ جوے (قمار) کی ایک صورت ہے،جو شرعا ناجائز ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
حوالہ جات
(القرآن الکریم:سورة المائدة،الآیة:90)
﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾
(رد المحتار : ج:7، ص:8 ،الناشر:دار المعرفة،بیروت )
"المراد بالمال ما يميل إليه الطبع، ويمكن ادخاره لوقت الحاجة ، والمالية تثبت بتمول الناس كافة،أو بعضهم ، والتقوم يثبت بها ،وبإباحة الانتفاع به شرعا ؛ فما يباح بلا تمول لا يكون مالا كحبة حنطة، وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر ، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم، بحر ملخصا عن الكشف الكبير ."
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق :ج: 10 / ص: 465)
"فإن بطلان البيع دائر مع حرمة الانتفاع ،وهي عدم المالية، فإن بيع السرقين جائز وهو نجس العين للانتفاع به لما ذكرنا."
(الفقه الإسلامي وأدلته :ج :4 / ص :402 )
المال المتقوم: كل ما كان محرزاً بالفعل، وأباح الشرع الانتفاع به كأنواع العقارات والمنقولات والمطعومات ونحوها.
وغير المتقوم: ما لم يحرز بالفعل، أو ما لا يباح الانتفاع به شرعاً إلا في حالة الاضطرار."
صحيح مسلم :ج 1 ،ص :72))
"عن سهيل بن ابى صالح عن ابيه عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا."
(رد المحتار علی الدر المختار :ج:27 ،ص:24)
"( قوله لأنه يصير قمارا ):لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة، وينقص أخرى ، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه،وهو حرام بالنص."
ابرار احمد صدیقی
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
١۲/ ربیع الثانی/ ١۴۴۵ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ابراراحمد بن بہاراحمد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |