021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نوجوانوں کو مختلف طریقوں سے پھنسا کر ان پر توہینِ مذہب کے غلط الزامات لگانا
81957جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کچھ عرصے سے پاکستان میں یہ معاملہ بہت بڑھتاجارہاہےکہ اندرونِ ملک پاکستان کے بڑے شہروں مثلاً:کراچی، اسلام آباد،راولپنڈی، سرگودھا ، خوشاب  اور لاہور وغیرہ سے کچھ شاطر افراد کا گروہ نوجوانوں کو مختلف  طریقوں سے بہلا پُھسلاکر ،دھوکہ دہی کے ذریعےبیرونِ ملک جابز کے سبز باغ دکھا کراور حیلے بہانےکرکے شادی کا لالچ دےکر اپنے فریب کے جال میں پھنساتے ہیں،عموماً راولپنڈی، اسلام آباد میں بلوا کر اپنی حراست میں لےلیتے ہیں  اور یہ ضرورت مند نوجوان ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں؛ کیوں کہ یہ لوگ سوشل میڈیا پر ملازمتوں کے متلاشی نوجوان تلاش کرتے ہیں ، جن کی تعلیم بھی اچھی ہو ،زیادہ تر اچھے بھلے گھرانوں سے کھاتے پیتے لوگ ہوں، عموماً بڑے سیاسی لوگوں کے رشتہ دار اور تعلقات والے نہ ہوں ، فقراء غرباء بھی نہ ہوں، نشہ آور اشیا کے استعمال سے اجتناب بھی کرتے ہوں ۔ان کو گھیرتے ہیں۔

بیرون ممالک ملازمتوں کا نام لے کرمختلف عنوانات سے پیسے بٹورتے ہیں،کبھی ویزے کے بہانےسے ،کبھی ٹکٹ کے بہانے سے اور کبھی سفری  ضروری ڈاکومنٹس کے عنوان سے وصولی کرتے ہیں۔نیز اس  پروپیگنڈہ مُہم کے تحت نوجوان نسل کو بہکانے کے لئے خواتین اور لڑکیوں کو بھی ذریعہ بناتے ہیں۔  کیوں کہ مِن حیث القوم تعلیم و تربیت کے فُقدان کے ساتھ ساتھ ملک میں  سیاسی عدمِ استحکام کے باعث مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری بھی ہے۔

 جب ان کے ہتھے لگ جاتے ہیں تو ان کے کھاتے  میں کبھی قرآن کی گستاخی، کبھی توہینِ رسالت، کبھی اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کی گستاخی  ڈال دیتے ہیں۔ ان کے موبائل سے ان کی آئ ڈی اور واٹس ایپ کو غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید برآں اس  پاکستانی  نوجوان نسل پرطرح طرح کے  الزامات لگا کر ان کو   جیلو ںمیں بند کروایا جارہاہے ۔وُرثاء کو شدید پریشان کرنے کےساتھ ساتھ   قتل کی دھمکیاں دے کر ان سے لاکھوں روپوں کی  رُقوم ہتھیانے کے لئے پورا گینگ سرگرم عمل ہے، شنیدہے کہ شر پسند عناصر کے ساتھ بعض خفیہ اداروں کے لوگ  بھی اس مُہم میں ملوث ہیں۔جس کا کسی قدر ثبوت استفتاء کے ساتھ منسلک بھی ہے۔

ایک طرف مقدمہ بازی  اور دوسری طرف  ڈیلنگ  کی کوشش کر تے ہیں ، ڈیلنگ  میں بھی بڑا منہ کھولتے ہیں اوربہت ہی زیادہ مخفی طریقے سے ڈیل کرتے ہیں، یہ dealingان کی مرضی کے مطابق ہوجائے تو چالان اور فرانزک ٹیسٹنگ رپورٹ، یہ سب کچھ صاف ہوجاتاہے۔ حال ہی میں احمد فیاض ستی کی ضمانت کا  سپریم کورٹ کا فیصلہ اسی قسم کی نشاندہی کرتا ہے۔ تحریر بھی منسلک ہے۔

ہمارے بہت  قریبی تعلق والے تقریباً 10 ماہ سے اسی ظلم کا شکار ہیں۔ان کے بچے کو اسی طرح کے چکر میں پھنسایا گیا، پیرانہ سالی کی دہلیز پرپاؤں رکھے ان کےوالد بزرگوار اور بھائیوں سے مختلف عنوانات کانام دے کر کئی  طریقوں سے لاکھوں روپےہتھیائے گئے، ان بیچاروں سےزیورات و جائیداد فروخت کروائی گئی، عدالتوں کے چکروں میں لاکھوں کے مقروض ہوگئے۔ لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوسکا۔ ان کا خاندان کئی پشتوں سے دیندار، حفاظ اور علماء کاخاندان ہے،کبھی بھی ان سے اور ان کے بچے سے،نیزان کے خاندان سےقرآن کریم، رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم ،  اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و عنہنّ کی ادنیٰ سی گستاخی  کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔معاشی تنگی کی وجہ سے روزگار کی تلاش میں تھے، بدقسمتی سے مذکورہ افرادکے ہتھے چڑھ  گئے، موصوف سے مختلف نمبروں سے رابطہ کیا جاتا رہا  اور اسپین بھیج کرملازمت دلوانے کا وعدہ بھی  کیا گیاجس کی و فا کا ذرا بھی پاس نہ رکھا گیا ۔ موصوف پر پاکیزہ ہستیوں کی پاک صاف ذات  پر گستاخی کا دھبہ لگا   کربے گناہ موردِ الزام  ٹھہرا تو دیا پر  عدالتوں  میں گستاخی  کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔

موصوف اور اسی طرح ان جیسے دوسرےبے گناہ ومظلوم  مسلمان نوجوانوں  کی داد رسی اور  ان کو انصاف دلانے کے لئےدرج ذیل مسائل کا شرعی حل چاہتےہیں۔

(1)۔۔۔ ریاستِ پاکستان میں امن و امان کے استحکام اور نوجوان نسل میں خوف و ہراس پیداکرنا، پاکستان کے حسّاس اور خفیہ اداروں کے حوالے سےنوجوانوں کو ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کر دینا کہ وہ بدظن ہوکرریاستِ پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، یہ سب کچھ پاکستان کے حساس اور حکومتی اداروں کے لئے قابل غور بھی ہے اورلمحہ فکر یہ بھی۔ ایسے لوگوں/اداروں کےلئے اسلامی تعلیمات  کی روشنی میں کیا حکم ہے؟  

(2)۔۔۔ کیا حکومتوں اور عدلیہ کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اس طرح کی ظالمانہ اور سفاک کاروائیوں کو روکیں اورفی الفور مسلمان نوجوانوں کو باعزت بری اور رہا کریں؟

(3)۔۔۔ کیا ان نوجوان مسلمانوں کی مالی اور قانونی مدد کرنا ثواب کاباعث ہوگا؟

(4)۔۔۔ کیا مسلمان نوجوانوں پر بہتان باندھنا اور ان کو اس قسم کے جرائم اور الزامات میں پھانسنا اللہ تعالی کی اور اس کے رسولﷺ  کی ناراضگی کو دعوت دیتا ہے یا نہیں؟

(5)۔۔۔ اس قسم کے ظلم کو روکنے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کے حوالے سے علماء اور دینی اداروں پرکس درجےمیں اورکتنی ذمہ داری  عائد ہوتی ہے؟

(6)۔۔۔ جو لوگ اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرکےمسلمان نوجوانوں کو پھنسا کر ان سے  مال وصول کرتے ہیں تو یہ مال ان کے لیے حلال ہوگا؟ کیا قبر اور حشرمیں  ان سے اس کاحساب کتاب ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل کی نعمت اس لیے دی ہے کہ وہ اس کو استعمال میں لاتے ہوئے اچھے کام کرے اور برے کاموں سے اجتناب کرے۔ انسان کے دین، ایمان، جان، مال اور آبرو کی حفاظت سب سے پہلے خود اسی پر لازم ہے؛ اس لیے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ دینی تعلیمات سے آگاہی حاصل کرے، فراخی اور تنگ دستی، بلکہ زندگی کی ہر حالت میں جو بھی کام کرنا چاہے، شریعت کی روشنی میں کرے، لوگوں سے معاملات اور تعلقات میں خوب احتیاط سے کام لے، مال، منصب، شہرت اور عیش و عشرت کی ہوس میں مبتلا ہو کر اپنے دین و ایمان اور عزت کو داؤ پر نہ لگائے، بلکہ حرص، طمع اور لالچ سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور مواقع پر شکر ادا کرے اور مزید کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کے ساتھ جائز، صاف، شفاف اور قانونی راستوں کا انتخاب کرے، جو جائز نعمتیں مل جائیں، ان پر قناعت اختیار کریں اور ناجائز کی تلاش میں نہ پڑیں۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درجِ ذیل ہیں:

(1)۔۔۔ معاشرے کو ہر قسم کے جرائم سے پاک رکھنا ریاست اور حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا جس طرح دینی شعائر اور مقدس شخصیات کی گستاخیوں کی روک تھام ریاست اور حکومت کا فرضِ منصبی ہے، اسی طرح بے گناہ لوگوں پر جھوٹے الزامات لگانے کا سدِّ باب بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ اس میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایسے جرائم پیشہ افراد عام لوگ ہوں، ریاستی اور حکومتی اداروں کے ملازمین ہوں یا ان کو با اثر طبقات کی سرپرستی حاصل ہو، ہر صورت میں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے، تاکہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں اور معاشرہ جرائم سے پاک ہو۔ کمزور کو سزا دینے اور طاقت ور کو بچانے سے انصاف کی عمل داری ممکن نہیں۔

(2)۔۔۔ آج کل جہاں ایک طرف مال و دولت اور دیگر مختلف باطل اغراض کے لیے لوگوں پر جھوٹے الزامات لگانے کی وبا عام ہے، وہیں دوسری طرف مغربی تہذیب، الحاد، نام نہاد آزادی اظہارِ رائے اور طرح طرح عنوانات کے تحت دینی شعائر اور مقدس شخصیات کی گستاخیاں ہونا بھی ایک حقیقت ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جن لوگوں پر گستاخی کا الزام ہو، حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ کسی قسم کے دباؤ اور لالچ کے بغیر ان الزامات کی شفاف، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کریں۔ جن لوگوں پر لگائے گئے الزامات درست ثابت ہوں، ان کو شریعت اور قانون کے مطابق سزا دیں۔ اور جن پر الزامات درست ثابت نہ ہوں، ان کو فوری طور پر باعزت رہا کریں۔ سوال نامہ میں مذکور احمد فیاض ستی نامی شخص کے معاملے سے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں، اس لیے اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

(3)۔۔۔ اگر واقعۃً کسی پر ایسا الزام لگایا گیا ہو جس کا ارتکاب اس نے نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایسے شخص کا جانی، مالی تعاون کرنا بلا شبہہ اجر و ثواب کا ذریعہ ہے۔

(4)۔۔۔ کسی بھی مسلمان پر کوئی تہمت لگانا شریعت میں سخت ناجائز اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا ذریعہ ہے، قرآنِ کریم کی آیات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس کی شناعت بہت وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ اور جب یہ تہمت کسی کے دین و ایمان سے متعلق ہو تو اس کی سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے۔

(5)۔۔۔ علما اور دینی اداروں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اعتدال کے ساتھ لوگوں کو صحیح دینی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔ ایک طرف ان کو دینی شعائر اور مقدس شخصیات کی عظمت اور ادب و احترام کا درس دیں، ان کے خلاف ہر قسم کی بد گمانی اور بد زبانی سے بچنے کی تاکید کریں، اس کی شناعت واضح کریں، اور دوسری طرف کسی بے گناہ پر ناجائز اور جھوٹے الزام لگانے کی سنگینی کے بارے  میں آگاہ کریں۔

(6)۔۔۔ ایسے لوگوں کا یہ فعل سخت حرام، ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اس طریقے سے حاصل کیا گیا مال ہرگز حلال نہیں، یہ مال کھانا جہنم کی آگ اپنے پیٹ میں بھرنے کے مترادف ہے، جس کا قبر میں اور قیامت کے دن پورا پورا حساب کتاب ہوگا، اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ ان برے اعمال کا بدلہ دنیا میں بھی چکھاتے ہیں۔ اس لیے ہر انسان پر ایسے جرائم سے باز رہنا لازم اور ضروری ہے، اگر کسی سے ایسے جرم کا ارتکاب ہوا ہو تو اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر توبہ و استغفار کرے، جس پر الزام لگایا ہو اس سے لوگوں کے سامنے معافی مانگے اور جو مال اس سے لیا ہو وہ پورا پورا اس کو واپس کردے اور آئندہ اس قسم کے کاموں سے مکمل اجتناب کا پکا عزم کرلے۔  

حوالہ جات
القرآن الکریم، سورۃ النساء:
{ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا (105) ……… وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا (110) وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (111) وَمَنْ يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (112) }.
صحيح البخاري (8/ 15):
عن أبي ذر رضي الله عنه أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: لايرمي رجل رجلا بالفسوق ولا يرميه بالكفر إلا ارتدت عليه إن لم يكن صاحبه كذلك.
الأحكام السلطانية (1/ 104-97):
الباب السابع في ولایة المظالم: ونظر المظالم هو قود المتظالمين إلى التناصف بالرهبة وزجر المتنازعين عن التجاحد بالهيبة …….. والذي يختص بنظر المظالم يشتمل على عشرة أقسام ………… والقسم العاشر: النظر بين المتشاجرين والحكم بين المتنازعين، فلا يخرج في النظر بينهم عن موجب الحق ومقتضاه، ولا يسوغ أن يحكم بينهم إلا بما يحكم به الحكام والقضاة، وربما اشتبه حكم المظالم على الناظرين فيها، فيجورون في أحكامها ويخرجون إلى الحد الذي لا يسوغ فيها.   

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       12/جمادی الاولیٰ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے